غزہ میں فائر بندی کے معاہدے کے نفاذ کے بعد شہری دفاعی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ہفتے کی شام تک پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی پٹی میں واپس آ چکے ہیں، جہاں مکمل تباہی کے مناظر ہیں۔
اسرائیل اور حماس نے مصر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں نو اکتوبر کو غزہ میں فائر بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا تھا، جس میں قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ میں امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔ یہ 20 نکاتی منصوبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہفتے کو لاکھوں فلسطینی تباہ حال غزہ شہر پہنچے جب کہ حماس اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی تیاری کر رہی ہے۔
حماس کے زیرِانتظام غزہ کی شہری دفاعی ایجنسی کے مطابق ہفتے کی شام تک پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی غزہ شہر واپس آ چکے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واپس آنے والی 52 سالہ رجا سلمی نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم گھنٹوں چلتے رہے اور ہر قدم میرے گھر کی فکر اور خوف سے بھرا ہوا تھا۔‘
جب وہ الرمل کے علاقے میں پہنچیں تو انہیں اپنا گھر بالکل تباہ ملا۔
ان کا کہنا تھا: ’میں اس کے سامنے کھڑی ہو کر رو دی۔ وہ ساری یادیں اب بس خاک بن کر رہ گئی ہیں۔‘
ایک اور شہری موسیٰ کا کہنا تھا: ’خدا کا شکر ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہمارا گھر اب بھی سلامت کھڑا ہے۔
’یہ غزہ نہیں، کسی اجڑے شہر جیسا لگ رہا ہے۔ موت کی بو اب بھی فضا میں بسی ہوئی ہے۔‘
غزہ شہر میں واپس آنے والے محمود الشندوغلی نے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا: ’غزہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمیں کہاں رہنا ہے یا کہاں جانا ہے؟‘
جب بلڈوزر دو برس کی جنگ کے بعد عمارتوں کا ملبہ صاف کر رہے تھے، ایک لڑکا فلسطینی پرچم لہرانے کے لیے ملبے پر چڑھ گیا۔
دوسری جانب اے پی کے مطابق لگ بھگ 200 امریکی فوجی اسرائیل پہنچ چکے ہیں تاکہ حماس کے ساتھ طے پانے والی جنگ بندی کی نگرانی کر سکیں۔ وہ ایک مرکز قائم کریں گے تاکہ انسانی امداد کی ترسیل کو آسان بنایا جا سکے اور لاجسٹک اور سکیورٹی معاونت فراہم کی جا سکے۔
غزہ کے لیے ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت، جیسے جیسے اسرائیلی فوج غزہ کے شہروں سے بتدریج انخلا کرے گی، اس کی جگہ مصر، قطر، ترکی اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل ایک کثیر قومی فورس لے گی، جس کی رابطہ کاری اسرائیل میں قائم امریکی قیادت والے کمانڈ سینٹر کے ذریعے ہوگی۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر نے کہا کہ ’یہ بڑی کوشش غزہ میں امریکی زمینی فوج کی تعیناتی کے بغیر ہی انجام پائے گی۔‘
مصری صدارتی دفتر نے ہفتے کو دیر گئے ایک بیان میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ اور وسیع تر مشرق وسطی کے بارے میں پیر کی دوپہر مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں 20 سے زیادہ ملکوں کے سربراہی اجلاس کی صدارت کریں گے۔
دوسری جانب قطر میں اے ایف پی کو انٹرویو میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے خبردار کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے دوسرے مرحلے میں ’کئی پیچیدگیاں اور مشکلات ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حماس مصر میں غزہ کے امن معاہدے پر ہونے والی باضابطہ دستخط کی تقریب میں شریک نہیں ہوگی۔
حماس ہتھیار ڈالنے کی اپیلوں کی مزاحمت کر رہی ہے۔ تنظیم کے ایک عہدےدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ اس کا ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
دستخط شدہ معاہدے کی نقل سے نئی تفصیلات
فائر بندی کے دستخط شدہ معاہدے کی ایک نقل میں کہا گیا ہے کہ حماس کو ایسے قیدیوں کی لاشوں سے متعلق تمام معلومات فراہم کرنا ہوں گی جن کی لاشیں پہلے 72 گھنٹوں میں حوالے نہیں کی جائیں گی اور یہ کہ اسرائیل غزہ کے ان فلسطینیوں کی باقیات کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا، جو اسرائیل میں قید تھے۔
حماس اور اسرائیل ثالثوں اور بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس کی معاونت سے طے شدہ طریقہ کار کے تحت معلومات کا تبادلہ کریں گے۔ یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ مرنے والے تمام قیدیوں کی باقیات حوالے کی جائیں گی۔
معاہدے میں کہا گیا کہ ثالث اور آئی سی آر سی قیدیوں کے تبادلے کے لیے عوامی تقاریب یا میڈیا کوریج کے بغیر سہولت فراہم کریں گے۔
اسرائیل اپنی قید میں موجود تقریباً 250 فلسطینیوں کو رہا کرے گا اور گذشتہ دو برس میں غزہ سے حراست میں لیے گئے تقریباً 1700 افراد کو بھی آزاد کرے گا، جنہیں بغیر کسی جرم کے قید میں رکھا گیا۔
اسرائیل پریزن سروس نے کہا کہ قیدیوں کو عوفر اور کتزیوت جیلوں کے ملک بدری مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے اور وہ ’سیاسی قیادت کی ہدایات کے منتظر ہیں۔‘
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 67 ہزار سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو قابل اعتبار سمجھتی ہے۔
ان اعداد و شمار میں شہریوں اور عسکریت پسندوں میں امتیاز نہیں کیا گیا لیکن یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جان سے جانے والوں میں میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔