انڈیا میں بڑھتے ہوئے انتہا پسند رحجانات کے باعث مسلمانوں کے لیے حالات اس قدر بدتر ہوں گے، یہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔
جن مسلمانوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت دو قومی نظریے کی مخالفت کرکے انڈیا میں رہنے کو ترجیح دی، وہ اس وقت عجیب کشکمش میں ہیں۔
نام نہاد سیکولرازم کے لبادے میں لپٹی اس قوم کو چوراہے پر کھڑا کیا جا رہا ہے، جہاں بس سرنڈر ہے یا پھر اٹھ کھڑے ہو کر اپنے حقوق، تحفظ اور عزت نفس کے حصول کے لیے آگے آنا ہے۔
بقول سیاسیات کے ایک پروفیسر کے ‘سیکولرازم کے نام پر مسلمانوں کو سن سنتالیس میں تقسیم کرنا کافی نہیں تھا کہ اب ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک شروع کر دیا گیا ہے۔
’اس کی تازہ مثال بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی ہے، جنہوں نے اپنے دفتر میں تقرری کے آرڈر دینے کے لیے بلائی جانے والی مسلمان عورت کا نقاب کھینچ کر اس کی تذلیل کی-‘
آپ نے بھی وہ خبر سنی ہو گی کہ میڈیکل کی ڈگری یافتہ مسلمان باپردہ خاتون تقرری کا آردڑ لینے کیا آئی کہ 74 سالہ وزیر اعلیٰ نے بھری محفل میں ان کے چہرے سے نقاب کو کھسکا دیا۔
شاید وہ خاتون سے کہہ رہے ہیں کہ اپنا پورا چہرہ دکھاؤ۔ پاس میں موجود بی جے پی کے نائب وزیر اعلیٰ نے انہیں اس حرکت سے روکنے کی کوشش کی مگر وزیر صحت ہنس ہنس کے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔
کیا نتیش کمار ذہنی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں یا ہندو انتہا پسندی نے ان پر گہرا اثر کیا ہے؟ یا پھر پس پردہ کوئی ہے جو ان کے مسلسل اختیار میں رہنے پر خوش نہیں؟
ویسے بھی بی جے پی کے اندرونی حلقوں میں نتیش کمار کا پھر وزیر اعلیٰ بننا نیک شگن نہیں تھا، لیکن پلٹو کمار کہنے والے منجھے ہوئے سیاست دان سے خوف بھی آرہا ہے کہ یہ کب بازی پلٹے اور بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دے، جو مرکز میں ام کے سہارے تخت پر براجمان ہے۔
نتیش کمار نے ایک مسلمان خاتون کا نہیں بلکہ انڈیا کی نصف آبادی کا اپمان یا بے عزتی کی، جو خود کو ماضی کے مقابلے میں غیر محفوظ تصور کرنے لگی ہے۔
اور سوال ایک مسلمان خاتون کا بھی نہیں بلکہ ان تمام خواتین کا ہے جو اب قانون کے پہرے داروں سے ہی خوف کھانے لگی ہیں۔
نتیش کمار کوئی عام شخص نہیں جنہوں نے ایک عورت کی عزت نفس پر ہاتھ ڈالا۔ وہ اس وقت سب سے سینیئر سیاست دان اور ایک بڑی ریاست کے دسویں بار کے وزیر اعلیٰ ہیں جن کے بارے میں عام خیال ہے کہ انہوں نے بہار کے غریبوں کا غم خوار بن کر کئی ایسے منصوبے روبہ عمل لائے جن کی بدولت عام لوگوں بشمول اقلیتوں کو مالیاتی اور سماجی سہارا ملا۔
لیکن کئی برسوں سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ وہ کئی غیر شائستہ حرکتیں کر چکے ہیں، جن پر انہیں شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
انڈیا: خاتون ڈاکٹر کا نقاب کھینچنے پر ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار پر تنقید کی جا رہی ہے اور ان سے معافی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ pic.twitter.com/bpjFfmdlo0
— Independent Urdu (@indyurdu) December 16, 2025
گو ان کے اکثر مداح کہتے ہیں کہ عمر کی وجہ سے انہیں ہوش نہیں رہتا، یاداشت کھو جاتے ہیں اور کس موقعے پر کیا واجب ہے اس کی تمیز نہیں رہی۔
لیکن ان کے مداحوں سے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ پھر ان پر بہار جیسی اتنی بڑی، پسماندہ اور مسائل سے بھری ریاست کا بوجھ کیوں ڈالا گیا؟
کیا ان کی پارٹی میں ایک بھی سیاست دان نہیں جو ان کا متبادل ہو سکتا ہے یا پھر ان کے دنیا سے جانے تک انتظار کرنا ہو گا۔
مسلم خاتون کے نقاب کھینچنے کے معاملے کو اگر حزب اختلاف کی جماعت راشٹریہ جنتا دل نہیں اٹھاتی تو عین ممکن تھا کہ اس پر پردہ ڈال دیا جاتا کیونکہ ان کی اتحادی جماعت نے میڈیا پر سخت کنٹرول رکھا ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نتیش کمار کی بدتمیزی کی یہ ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تب بھی ان کی یا پارٹی کی جانب سے کوئی معافی نامہ نہیں آیا۔
جبکہ بی جے پی نے لمبی خاموشی کے بعد حزب اختلاف سے وابستہ جماعتوں کے کئی غیر شائستہ پرانے ویڈیو منظر عام پر لاکر اپنا حساب برا بر کرنا چاہا۔
اس پر ستم یہ کہ بی جے پی کی اترپردیش کی حکومت میں وزیر سنجے نشاد کہتے ہیں ’نتیش (کمار)نے کہیں اور نہیں چھوا، بس نقاب کو ذرا سرکا دیا‘-
اس غیر شائستہ حرکت کے بعد مذکورہ خاتون نے نوکری لینے سے انکار کر دیا اور بعض خبروں کے مطابق وہ انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکی ہیں۔
انتہا پسند ہندوؤں پر صرف مذہبی جنونیت ہی سوار نہیں بلکہ مسلمانوں کی تضحیک اور تذلیل کرنے سے انہیں راحت محسوس ہوتی ہے اور اسلام کے خلاف بولنے سے انہیں انعام سے نوازا جاتا ہے۔
جہاں جنسی تشدد کی شکار بلقیس بانو کے مجرموں کو ضمانت کے بعد پھولوں کے ہار پہنائے جائیں، وہاں اب نتیش کمار یا ان جیسے سیاست دانوں سے تحفظ کی کیا اُمید رکھی جا سکتی ہے۔
ویسے بھی انڈیا میں ہر چند منٹ میں جنسی تشدد کا ایک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ عورتیں خود کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہیں، اس کے باوجود لوگ جوق در جوق ایسے ہی سیاست دانوں کو انتخابات میں جتا رہے ہیں۔
اگرچہ بہار کے حالیہ انتخابات میں عورتوں کے بینک کھاتوں میں 10 ہزار روپے ڈال کر ان کا ووٹ خرید لیا گیا، مگر ان کی عزت کرنے کی تہذیب پھر بھی نہیں آئی اور اس کا مظاہرہ نتیش کمار نے بھری محفل میں کیا۔ شاید اس کا ادراک عورتوں کو ہونا چاہیے تھا مگر ۔۔۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ عورتوں کے حقوق کی بیشتر تنظیموں یا کمیشنوں نے اف تک نہیں کی، حتیٰ کہ قومی کمیشن برائے خواتین نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔
سیاست اس قدر گر سکتی ہے اور خود عورتوں کی انجمنیں اس قدر خاموشی اختیار کر سکتی ہیں؟
یہ انڈیا کی سیاست کا نیا چہرہ دکھاتا ہے، جس نے اگر مسلمان خاتون کی بے عزتی پر بات نہیں کی تو کل جب ایک ہندو خاتون کا گھونگھٹ ہٹایا جائے گا تو شاید ماتم کرنے والا خود ہندو بھی نہیں ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
