پرتشدد انتہا پسندی کے روک تھام کی حکمت عملی

پرتشدد انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے پورے ملک کی مشترکہ کوشش درکار ہے، جہاں ریاست اور معاشرہ دونوں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پاکستانی فوجی اہلکار 24 اکتوبر 2009 کو جنوبی وزیرستان سے ڈیرہ اسماعیل خان کے مضافات میں ایک سڑک کے ساتھ فوجی رسد لے جانے والے ٹرکوں کو سکیورٹی فراہم کرتے ہوئے (اے ایف پی)

پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی کا خطرہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے کئی راستے اور اسباب ہیں جو بدلتے ہوئے حالات میں مسلسل ارتقا پذیر رہتے ہیں، جس کے باعث ایک جامع مگر لچکدار حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے لیے مستقبل میں پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے فریم ورک کا تصور کرتے ہوئے دو باتیں نہایت اہم ہیں

اول پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی ایک سماجی مسئلہ ہے جو نظریاتی، سیاسی، معاشی اور نسلی عوامل کے پیچیدہ امتزاج سے جنم لیتا ہے۔

ایک ہی حل سب کے لیے جیسا طریقہ کار نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ پرتشدد انتہا پسندی جو ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، کو حد سے زیادہ آسان بنا کر صرف سکیورٹی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔

دوم، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خاتمے اور افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد صرف عسکری اقدامات پر انحصار کرتے ہوئے بنیادی وجوہات کو نظر انداز کرنا مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید بڑھا چکا ہے۔

لہٰذا پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمینی حقائق پر مبنی، جامع اور مقامی حکمتِ عملی تیار کرے جو پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کی پیچیدگیوں کو صحیح معنوں میں سمجھ سکے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام اور انسداد سے متعلق اقدامات بیوروکریٹک سستی کا شکار ہیں اور یہ انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے مطابق ترقی نہیں کر سکے۔

اگرچہ پاکستان میں مختلف اقدامات کے ساتھ ایک جامع ادارہ جاتی ڈھانچہ موجود ہے، تاہم اس کا بنیادی ردِعمل اب بھی زیادہ تر عسکری نوعیت کا ہے۔

مختلف پالیسیاں، جیسے قومی داخلی سلامتی کی دو پالیسیاں، نیشنل سکیورٹی پالیسی 2022–2026، نیشنل پریوینشن آف وائلنٹ ایکسٹریمزم پالیسی 2024 پاکستان کو درپیش انتہا پسندانہ چیلنجز کو جامع طور پر بیان کرتی ہیں۔

لیکن ان پالیسیوں پر مؤثر عملدرآمد ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ مختلف سکیورٹی اداروں کے اختیارات میں اوورلیپ اکثر غلط فہمیوں اور کبھی کبھی ذمہ داری سے دستبرداری کا سبب بنتا ہے۔

مزید یہ کہ پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف متعلق مختلف پالیسیاں ایک رکاوٹ بن سکتی ہیں، لیکن یہ اچھی حکمرانی اور مؤثر سروس ڈیلیوری کا متبادل نہیں بن سکتیں۔

اچھی حکمرانی وہ بنیاد ہے جو ریاست اور معاشرے کو جوڑے رکھتی ہے۔ ریاست کا اعتبار، یا اس کی کمی، کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

اگر تنازع سے متاثرہ برادریاں ریاستی سکیورٹی اقدامات پر اعتماد کھو دیں، تو انتہا پسند گروہوں کو اپنے نیٹ ورک پھیلانے اور نظریاتی اثر بڑھانے کے لیے مواقع مل جاتے ہیں۔

وہ خاص طور پر غصے اور محرومی کے شکار نوجوانوں کی کمزوریوں کو استعمال کرتے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا اور خفیہ آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔

پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی نسلی، سماجی، سیاسی اور نظریاتی تقسیموں سے بالاتر ہو کر پھیلتی ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر اس کی موجودگی کے باعث تیزی سے ارتقا پذیر ہے، جس کے باعث اس کی نشاندہی اور روک تھام ایک مشکل کام بن چکا ہے۔

پُش فیکٹرز

گذشتہ برسوں میں سیاسی عدم استحکام، معاشی غیر یقینی صورت حال، اور بدامنی نے ایسے متعدد رخنے پیدا کیے ہیں جو لوگوں کو پرتشدد انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اگرچہ انتہا پسندی کی طرف جانے والے راستے مختلف ہیں، لیکن کچھ عام پش فیکٹرز واضح طور پر سامنے آتے ہیں۔

فرقہ وارانہ تقسیم

پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی کا سب سے بڑا دھکیلنے والا عامل فرقہ وارانہ پولرائزیشن ہے۔ ملک میں مذہبی تعلیم سخت فرقہ وارانہ خطوط پر دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ایک ایسا ماحول بنتا ہے جہاں مختلف فرقے ایک دوسرے کو مخالف اور دشمن سمجھتے ہیں۔

بلوچ علیحدگی پسندی

بلوچستان میں نسلی علیحدگی پسندی دوسرا بڑا پش فیکٹر ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند گروہوں نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی محرومیوں کا فائدہ اٹھایا ہے اور انہیں اپنے گروہوں میں شامل کیا ہے۔

حالیہ برسوں میں بے روزگاری، نسلی امتیاز اور ریاستی رویوں کے باعث بڑی تعداد میں بلوچ نوجوان مسلح تحریکوں میں شامل ہوئے ہیں۔ ان کی ریڈیکلائزیشن کی سب سے بڑی وجہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ہے۔ یعنی بلوچ مخالفین کی مبینہ گرفتاری اور اموات۔

کمزور سول ادارے

پاکستانی سسٹم کی ناہموارکمزوری بھی پرتشدد انتہا پسندی کا ایک اہم سبب ہے، جو سیاسی عدم استحکام اور معاشی غیر یقینی صورت حال سے پیدا ہوتی ہے۔

اس سے مراد یہ ہے کہ ملک کے سکیورٹی ادارے تو مضبوط ہیں اور ملکی سالمیت کے تحفظ کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر سول ادارے کمزور، بدعنوان اور مؤثر حکمرانی اور عوامی خدمت کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

پُل فیکٹرز

نوجوان، جن کے ذہنوں میں بے شمار سوالات ہوتے ہیں، جب انہیں ان کا جواب نہیں ملتا تو وہ آسانی سے پرتشدد انتہا پسندی کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ بند معاشروں میں، جہاں روایتی طریقے سوال پوچھنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، یہ رجحان مزید بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی کے حوالے سے سب سے طاقتور پُل فیکٹر نوجوانوں میں تعلق اور شناخت کی تلاش ہے۔ پاکستان کی تقریباً 65 فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، اور 2050 تک یہ نوجوان آبادی برقرار رہنے کی توقع ہے۔

تیز رفتار معلوماتی دور، سوشل میڈیا اور مسلسل رابطے نے سماجی اقدار اور رویّوں کو تبدیل کر دیا ہے، جس کے باعث نوجوان معاشرے میں اپنی جگہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔

اسی طرح، پچھتاوے، احساس جرم اور ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کی خواہش بھی نوجوانوں کو عسکری گروہوں کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں تین عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں:

بیانیہ، ضروریات اور نیٹ ورکس

نیٹ ورکس ایسے پلیٹ فارمز مہیا کرتے ہیں جہاں نوجوانوں کو عسکریت میں شامل ہونے کا راستہ ملتا ہے۔

ضرورتیں اُن غموں، محرومیوں یا احساسِ جرم کی نمائندگی کرتی ہیں جو نوجوانوں کو ان نیٹ ورکس کی طرف مائل کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ بیانیے انہیں نظریاتی جواز اور یہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ زندگی میں کوئی بڑا مقصد پورا کر رہے ہیں۔

ایک کم نمایاں لیکن بہت تشویش ناک رجحان سوشل میڈیا کے ذریعے انتہا پسندی کی طرف کھنچاؤ ہے، جہاں ٹوٹی پھوٹی یا غیر معمولی خاندانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے کچھ نوجوان محض سنسنی یا رومانویت کے باعث انتہا پسند نیٹ ورکس کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اپنے اہلِ خانہ کی جانب سے توجہ، محبت اور دیکھ بھال نہ ملنے کے باعث وہ اپنا زیادہ وقت انٹرنیٹ پر گزارتے ہیں اور زندگی کے خلا کو پُر کرنے کے لیے نئے بندھن تلاش کرتے ہیں۔

پرتشدد انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے پورے ملک کی مشترکہ کوشش درکار ہے، جہاں ریاست اور معاشرہ دونوں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ریاستی اداروں کا کردار صرف 20 فیصد ہوتا ہے، جبکہ معاشرے کی مزاحمت، یعنی انتہا پسند نظریات کی اجتماعی مخالفت اور کمیونٹی کی سطح پر برداشت اور مضبوطی 80 فیصد حصہ رکھتی ہے۔

ریاست اگر اقدامات کے ذریعے دہشت گردی کا زور کم کرتی ہے، تو معاشرہ غیر عسکری، سماجی اور فکری سطح پر انتہا پسندی کو شکست دیتا ہے۔

مصنف ایس راجاراتنام سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر