میرے سامنے ہمارے ایک مشترکہ دوست کے دوست بیٹھے تھے، وہ سکینڈینیویا کی انڈین کمیونٹی میں خاصی متحرک انڈین مسلم شخصیت ہیں۔
ملاقات میں خاصی دیر انڈین وزیراعظم نریندر مودی پر سیاسی تنقید چلتی رہی۔ ماحول گرم تھا تو میں نے بھی پوچھ لیا کہ اگر آج مودی یورپ کے دورے پہ آئے اور اوورسیز انڈینز کے جلسے سے خطاب کریں تو کیا آپ ترنگا لے کر مودی کو سننے جائیں گے؟
جواب نے مجھے حیران کردیا، موصوف کہنے لگے ہو سکتا ہے کہ کوئی عام اوورسیز انڈین نہ جائے تو کوئی مسئلہ نہ ہو لیکن میں انڈین مسلم ہوں، میں یورپ میں سماجی طور پہ متحرک ہوں اس لیے مودی کا بائیکاٹ کرنا مجھے مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے انڈیا میں موجود میرے گھر والوں کو دھمکایا جائے۔ ہوسکتا ہے اوورسیز انڈین کمیونٹی میرا بائیکاٹ کردے اس لیے میرے لیے مودی کی جے جے کار کرنے میں ہی عافیت ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں انڈین تارکین وطن تقریباً ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہیں جو اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی اوور سیز کمیونٹی ہے جس میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی غالب تعداد ہے لیکن دنیا بھر کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ انڈیا سے باہر موجود ہندو کمیونٹی میں شدت پسند ہندو نیشنلزم کے نظریات اب اپنے عروج پہ پہنچ گئے ہیں۔
اوورسیز انڈینز میں ہندو نیشنل ازم کا زہر اتارنے کا سہرا نریندر مودی کے سر جاتا ہے۔ نریندر مودی نے وزیراعظم بننے سے بہت پہلے انڈیا سے باہر موجود ہندووں کو اپنا سیاسی اثاثہ بنانا شروع کردیا تھا۔ مودی چائے بناتے بناتے وزیرِ اعظم نہیں بنے بلکہ اس کے پیچھے ہندوتوا کی پوری لابی تھی جو آج بھی کھڑی ہے۔
آشیش رے انڈین مصنف اور ریسرچر ہیں انہوں نے ایک تحریر میں لکھا کہ 1990 میں شدت پسند ہندو تحریک آر ایس ایس (راشٹریا سویم سیوک) نے ہندوتوا کے پرچار کے لیے وفد امریکہ بھیجا تھا۔ نریندر مودی اس وفد کا حصہ تھے جنہوں نے امریکہ میں گجراتی ہندوؤں کے درمیان کام کیا اور برطانیہ میں بھی ہندوتوا کی تقریبات میں شریک ہوتے رہے۔
آشیش رے مزید لکھتے ہیں کہ 2002 کے مسلم کش گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی کا سیاسی کیریئر ختم ہونے کے قریب تھا اور وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی انہیں برطرف کرنے پر غور کر رہے تھے، ایسے میں ہندو کمیونٹی کے گجراتی تارکین وطن مودی کے ساتھ کھڑے ہو گئے جنہوں نے مودی کی ساکھ بحال کرنے کے لیے امریکہ کی لابنگ فرم کی خدمات لیں۔ نتیجہ یہ کہ وہ مودی جنہیں مغربی میڈیا نے گجرات کے قصائی کا خطاب دیا اچانک 2012 میں اسی مودی کو ٹائم میگزین نے سرورق پہ ابھرتے ہوئے لیڈر کے طور پہ جگہ دے دی۔
سربراہ مملکت کے غیر ملکی دوروں کا بنیادی مقصد اپنے ہم منصبوں سے بات چیت ہوتا ہے تاکہ قومی مفاد حاصل کریں لیکن مودی کے تقریباً ہر غیر ملکی دورے کا مرکز انڈین بالخصوص ہندو تارکین وطن سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ ’دا ڈپلومیٹ‘ میگزین کے ایک آرٹیکل کا تجزیہ کہتا ہے کہ مودی نے خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر ہندو قوم پرستی کے لیے استعمال کیا ہے۔ قدیم ہندو ثقافت کو پاپولر کلچر بنا کر پیش کرنا، بیرون ملک دوروں میں ہندوتوا کے مقامی لیڈرز کا پیش پیش رہنا اور بیرون ملک ہندو مندروں کا افتتاح اس کی چند ایک مثالیں ہیں۔
انڈیا سے باہر ہندو شدت پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی جڑیں مودی کے طاقت میں آنے سے بہت پہلے کی ہیں۔ ہندوؤں کی مغربی ممالک، امریکہ اور برطانیہ کی جانب ہجرت دراصل تقسیم ہند اور مشرقی افریقی ممالک سے مغربی کالونی کے اختتام سے شروع ہوتی ہے لیکن مودی سے پہلے آر ایس ایس تنظیم کے غیر ملکی آپریشن کو سرکاری آشیر باد نصیب نہیں تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصنف آشیش رے کے مطابق اس وقت برطانیہ میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ہندو سویم سیوک سنگھ کی 65 شاخیں ہیں جبکہ امریکہ میں اس کی تعداد 220 تک جا پہنچی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندو قوم پرست گروہوں میں گجراتی ہندو نمایاں تعداد میں ہیں۔
کئی دہائیوں تک انڈیا دنیا میں پروپیگنڈہ کرتا رہا کہ انڈیا ایک ترقی پسند، آزاد خیال جمہوریت ہے جہاں کئی مذاہب، کئی زبانیں اور کئی ثقافتیں سکون اور آزادی سے پھل پھول رہی ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا بھر میں موجود انڈین فارن مشنز کا مکمل فوکس ہندو مذہب تک سمٹ گیا ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہولی، دیوالی کو انڈین کلچر کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے۔ کلچر کے نام پہ بڑے ایونٹس پرائیوٹ تنظیموں سے منعقد کرائے جاتے ہیں جنہیں فنڈنگ انڈین سفارت خانے کرتے ہیں۔ ان ایونٹس میں ہندو مذہب کا پرچار کھل کر کیا جاتا ہے جہاں ’جے شری رام‘ کے نعروں کی گونج میں دنیا کو جتایا جاتا ہے کہ انڈیا ایک سیکولر ریاست ہے۔
انڈیا میں جندل سکول آف انٹرنیشنل افئیرز کے ڈین سکالر رام چولیا نے ’دا گلوبلسٹ‘ میگزین کے لیے ایک تحریر میں کہا کہ مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنی بیرون ملک شاخوں کو ثقافتی تقریبات اور پیشہ ورانہ نیٹ ورکنگ سے ہٹاکر لابنگ اور پریشر گروپس کی تشکیل کی طرف لے جا رہی ہے۔
ڈاکٹر چولیا کے مطابق بی جے پی کی اوورسیز شاخیں اسرائیلی لابی کو آئیڈیلائز کرتی ہیں کہ کس طرح امریکی اور مغربی قانون سازوں، ایگزیکٹو حکام اور میڈیا میں مقامی حمایتیوں کا نیٹ ورک بنا کر انڈیا کے مفادات کو آگے بڑھایاجا سکتا ہے۔
اس وقت انڈیا میں مودی کی سربراہی میں جس مذہبی شدت پسندی کو فروغ مل رہا ہے اس کا نتیجہ معاشرتی تقسیم کا شکار، مذہبی جنون زدہ، نفرت کی سیاست پہ مبنی اندرونی خلفشار کے شکار انڈیا کی شکل ہمارے سامنے ہے۔ اب یہ شدت پسند ہندو زعفرانی رنگ انڈیا کی اوور سیز کمیونٹی میں بھی نظر آنے لگا ہے۔ مذہبی جنونیت کے یہ وہ امراض ہیں جن کے سامنے ان کی معاشی ترقی بہت چھوٹی لگتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔