’ہندوتوا نظریے‘ کے خالق ساورکر کی انگریزوں سے وفاداری کی کہانی

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ونایک دامودر ساورکر کو اپنا نظریاتی گرو مانتی ہے اور انہیں احتراماً ’ویر ساورکر‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔

1948 میں ساورکر پر مہاتما گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگا، تاہم انہیں عدالت نے ثبوت نہ ملنے کی بنا پر بری کر دیا (وکی پیڈیا پبلک ڈومین)

 

دسمبر 1909 کو مہاراشٹر کے شہر ناسک میں ایک 17 سالہ جوشیلے ہندو برہمن نوجوان اننت لکشمن کنہارے نے تھیٹر ڈرامہ دیکھنے آئے انگریز سرکاری افسر آرتھر میسن ٹپیٹس جیکسن المعروف پنڈت جیکسن کو گولی مار کر قتل کر دیا۔

پنڈت جیکسن کے متعلق تاریخ کے صفحات میں درج ہے کہ وہ سرکاری افسر ہونے کے علاوہ ایک ایسے تاریخ دان تھے جنہیں سنسکرت اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت میں بڑی دلچسپی تھی۔

نیز لوگوں میں ایک ’نیک انگریز سرکاری افسر‘ کے طور پر مشہور تھے۔ وہ اُس وقت ناسک میں ضلع مجسٹریٹ کی حیثیت سے تعینات تھے اور کچھ ہی دنوں بعد بمبئی میں کمشنر کا عہدہ سنبھالنے والے تھے۔

پھر اننت لکشمن کنہارے نے اس ’نیک انگریز سرکاری افسر‘ کو کیوں مارا؟ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پنڈت جیکسن نے بحیثیت ضلع مجسٹریٹ ناسک ابھینو بھارت سوسائٹی یا ینگ انڈیا سوسائٹی کے شریک بانی گنیش دامودر ساورکر کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے میں اپنا منصبی کردار ادا کیا تھا۔

ابھینو بھارت سوسائٹی کے دوسرے شریک بانی گنیش دامودر ساورکر کے چھوٹے بھائی ونایک دامودر ساورکر تھے جنہیں آج بھارت میں ’ہندوتوا نظریے‘ کا خالق اور بانی مانا جاتا ہے۔

دونوں بھائیوں نے ابھینو بھارت سوسائٹی ہندوستان کی تحریک آزادی میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لیے قائم کی تھی۔

انگریز افسر پنڈت جیکسن کے قتل کا یہ معاملہ ہندوستان کی تاریخ میں ’ناسک کانسپریسی کیس‘ کے نام سے درج ہے۔ معاملے میں اننت لکشمن کنہارے سمیت تین لوگوں کو پھانسی دی گئی جبکہ کئی دیگر کو قید کی طویل سزا ملی۔

’ناسک کانسپریسی کیس‘ کے ملزمان میں ونایک دامودر ساورکر بھی شامل تھے جن پر بعد ازاں پنڈت جیکسن کے قاتل اننت لکشمن کو پستول فراہم کرنے کا جرم ثابت ہوا۔

مارچ 1910 میں برطانوی پولیس نے ساورکر کو لندن کے وکٹوریہ ریلوے سٹیشن سے گرفتار کیا۔ انہیں ہندوستان میں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے جولائی 1910 میں ایک سمندری جہاز میں بٹھایا گیا۔

سات جولائی کو جب یہ جہاز فرانس کی بندرگاہ مارسیلز پر پہنچا تو انہوں نے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کی، مگر پکڑے گئے۔

بمبئی پہنچنے پر دامودر ساورکر کو پونے کی یرودا سینٹرل جیل میں بند کیا گیا۔

1911 میں عدالت نے انہیں ناسک کے ضلع مجسٹریٹ پنڈت جیکسن کے قاتل اننت لکشمن کو قتل پر اکسانے اور حکومت کے خلاف سازش رچانے کے معاملات میں قصوروار قرار دے کر دو بار عمر قید کی سزا اور مجموعی طور پر 50 سال قید کی سزا سنائی۔

چار جولائی، 1911 کو انگریز حکومت نے ساورکر کو ایک ’سیاسی قیدی‘ کا درجہ دے کر انڈمان و نکوبار کے جزیرے پر واقع سیلولر جیل معروف بہ ’کالا پانی‘ منتقل کیا۔

 رحم کی درخواستوں میں وفاداری کی قسمیں

ڈاکٹر شمس الاسلام دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ہیں۔ وہ بھارت کی سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کی ’اصلیت‘ پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان میں ’ساورکر: متھس اینڈ فیکٹس‘ بھی شامل ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ہندو مہا سبھا کے رہنما اور ’ہندوتوا نظریہ‘ کے خالق ونایک دامودر ساورکر نے ایک لمبے عرصے تک جیل میں رہنے پر انگریز حکومت سے مکمل وفاداری کو ترجیح دی تھی۔

’ساورکر نے 1911 سے 1920 تک انگریز حکومت کو کم از کم پانچ رحم کی درخواستیں دیں۔ ان میں سے 1913، 1914 اور 1920 کی درخواستیں نیشنل آرکائیوز آف انڈیا میں موجود ہیں، جن کا متن ہندوتوا کے گرو کی اصلیت بیان کرتا ہے۔

’1911 اور 1918 کی رحم کی درخواستیں، جو نیشنل آرکائیوز آف انڈیا میں موجود نہیں ہیں، کا ذکر انہوں نے خود اپنی باقی تین درخواستوں میں کیا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو ڈاکٹر شمس الاسلام اور ان کے ساتھی امت اندورکر کی وساطت سے ساورکر کی طرف سے 1913، 1914 اور 1920 میں لکھی گئیں رحم کی تین درخواستیں دستیاب ہوئی ہیں۔

14 نومبر 1913 کو سیلولر جیل میں ذاتی طور پر انگریز حکومت کے محکمہ داخلہ کے رکن سر ریجنلڈ کریڈاک کو پیش کی جانے والی رحم کی اپنی درخواست میں ساورکر انگریز حکومت کے تئیں وفادار رہنے، اس کے لیے کام کرنے اور ’گمراہ نوجوانوں‘ کو حکومت سے جوڑنے کی باتیں کرتے ہیں۔

ساورکر کی رحم کی درخواست میں لکھا ہے: ’لہٰذا اگر حکومت اپنے متنوع احسانات اور رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے رہا کرتی ہے تو میں آئین اور انگریز حکومت کا سب سے بڑا فرماں بردار اور پیروکار بنوں گا۔

’جب تک ہم جیل میں بند ہیں تب تک جناب عالی کی وفادار ہندوستانی عوام کے سینکڑوں ہزاروں گھروں میں خوشی دستک نہیں دے سکتی کیوں کہ خون پانی سے گاڑھا ہوتا ہے۔

’لیکن اگر ہمیں رہا کیا جاتا ہے تو لوگوں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑیں گے۔ وہ فطری طور پر حکومت کے لیے خوشی اور شکر گزاری کے نعرے بلند کریں گے۔ یہ وہ حکومت ہے جو سزا دینے یا بدلہ لینے سے زیادہ معافی اور اصلاح کی طرفدار ہے۔

’علاوہ ازیں میرے آئینی راستے پر چلنے سے ہندوستان اور بیرون ملک کے وہ سبھی گمراہ نوجوان، جو مجھے اپنا رہنما مانتے تھے، واپس آ جائیں گے۔

’حکومت جس حیثیت سے چاہے میں اس کی خدمت کرنے کو تیار ہوں۔ کیوں کہ میرا نظریہ پوری طرح سے تبدیل ہو چکا ہے اور میں توقع کرتا ہوں کہ آگے بھی میرا رویہ ایسا ہی رہے گا۔

’مجھے جیل میں رکھ کر کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ رہا کرنے سے زیادہ حاصل ہو گا۔ طاقتور ہی معاف کرنے کا مادہ رکھتے ہیں اور اس لیے ایک بگڑا ہوا بیٹا حکومت کے موروثی دروازے کے ماسوا کہاں لوٹ سکتا ہے؟ پُر امید ہوں کہ حضور والا ان نکات پر الطاف و عنایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے غور کریں گے۔‘

ان کی تمام رحم کی درخواستوں میں 30 مارچ، 1920 کی درخواست زیادہ تفصیلی تھی اور دیگر درخواستوں کی طرح اس میں بھی انگریز حکومت کے تئیں پوری وفاداری اور خودسپردگی کی پیشکش کی گئی تھی۔

اس میں ساورکر لکھتے ہیں کہ ’میں نے جوش میں آ کر اپنی جوانی خراب کر دی اور جیل سے رہائی میرے لیے نیا جنم لینے جیسا ہو گا۔‘

اس تفصیلی رحم کی درخواست میں وہ انڈمان کے چیف کمشنر کو سرحدی خطرات پر تجاویز دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’اسی لیے 1914 میں جب جنگ (پہلی عالمی جنگ) شروع ہوئی اور ہندوستان پر جرمن – ترک – افغان حملے کے خطرات تھے، میں نے حکومت کے سامنے ایک رضاکار کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔

’آپ اس پر یقین کریں یا نہ کریں میں آئینی راستے کا پوری طرح سے قائل ہوں اور اپنے اس ارادے اور ایمانداری کا اظہار کر چکا ہوں۔ پیار و باہمی احترام سے شرسار ہوں۔ برطانوی ڈومینین کی تقویت کے لیے اپنی خدمات کو پیش کرنے کے تئیں پوری طرح سے ایماندار ہوں۔

’درحقیقت میں کسی ذات یا فرقہ یا لوگوں سے صرف اس بنیاد پر نفرت کرنا مناسب نہیں سمجھتا کہ وہ ہندوستانی نہیں ہے۔

’لیکن اگر حکومت مجھ سے اس کے علاوہ ضمانت کے طور پر مزید کچھ چاہتی ہے تو میں اور میرا بھائی ایک طے شدہ وقت کے لیے جیسا کہ حکومت مناسب سمجھے، سیاست میں شریک نہ ہونے کا اقرار کرنے کو تیار ہیں۔

’اس کے علاوہ میری صحت لگاتار خراب ہو رہی ہے۔ میں اپنے اہل خانہ کی نیک تمناؤں سے محروم ہوں۔ اب میں سکون سے ایک سبکدوش شخص کی طرح اپنی زندگی کے بقیہ ایام گزارنا چاہتا ہوں۔ اب میری زندگی میں ایسا کچھ نہیں ہے جو مجھے فعال سرگرمیوں کی جانب راغب کرے۔

’یا دیگر کوئی وعدہ، مثال کے طور پر کسی خاص خطے میں رہنے یا ہماری رہائی کے بعد ایک وقت مقررہ تک پولیس کے سامنے پیش ہو کر اپنی سرگرمیوں کے بارے میں مطلع کرتے رہنا یا دیگر کوئی موزوں شرط جو کہ ریاست کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر سمجھی جائے، میں اور میرا بھائی بہ خوشی قبول کرنے کو تیار ہیں۔

’آخر میں، میں ان سینکڑوں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے، جن میں انڈمان سے آزاد کیے گئے قیدی بھی شامل ہیں، حکومت کے تئیں اظہار تشکر کرتا ہوں، اس طرح 1914 اور 1918 کی میری درخواستوں کو جزوی طور پر منظور کیا گیا ہے۔

’اس لیے اب یہ امید بجا ہے کہ جناب عالی بقیہ قیدیوں کو بھی رہا کریں گے۔ کیوں کہ ان کے معاملے بھی آزاد کیے جا چکے قیدیوں کی ہی طرح ہیں۔ میں اور میرے بھائی کا معاملہ بھی اس میں شامل ہے۔

’خاص طور سے مہاراشٹر گذشتہ کئی سالوں سے کسی بھی قسم کے تشدد یا ایسی کسی قسم کی بدانتظامی سے پوری طرح سے پاک رہا ہے۔

’ان تمام بنیادوں پر مجھے یقین ہے کہ حکومت (میری رہائی پر) غور کرے گی۔ میں طے شدہ مناسب پابندیوں کو قبول کرنے کو تیار ہوں۔

’حکومت کے ذریعہ اعلان کیے گئے موجودہ اور متوقع اصلاحات سے متفق و کمر بستہ ہوں۔ شمال کی جانب سے ترک – افغان شدت پسندوں کا خطرہ دونوں ممالک کے سامنے یکساں طور پر موجود ہے۔

’ان حالات نے مجھے برطانوی حکومت کا ایمان دار معاون، وفادار اور طرفدار بنا دیا ہے۔ اس لیے حکومت مجھے رہا کرتی ہے تو میں ذاتی طور پر ممنون رہوں گا۔

’میری ابتدائی زندگی شاندار توقعات سے مزین تھی۔ لیکن میں نے زیادہ جوش میں آ کر سب برباد کردیا۔ میری زندگی کا یہ بے حد خطرناک اور دردناک دور رہا ہے۔

’رہائی میرے لیے نئی پیدائش ہو گی۔ حکومت کی یہ نوازش میرے دل اور جذبات کو اندرون تک متاثر کرے گی۔

’میں ذاتی طور پر صدا کے لیے آپ کا ہوجاؤں گا، مستقبل میں سیاسی طور پر ثمرآور رہوں گا۔ اکثر طاقت جہاں ناکامیاب ہو جاتی ہے وہاں درد مندی کامیاب ہو جاتی ہے۔

’توقع ہے کہ چیف کمشنر کو یاد ہو گا، ان کے پورے میعاد کار کے دوران میں نے ذاتی طور سے ان کے تئیں صدا ہی احترام کا اظہار کیا۔ اس دوران مجھے کتنی بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

’یقیناً آپ کے من میں میرے تئیں کسی قسم کا کینہ نہیں ہو گا۔ امید ہے کہ آپ مجھے مایوسی کی اس حالت سے باہر نکالنے کی غرض سے میری اس عرضی کو آگے بڑھانے کی مہربانی کریں گے۔

’آپ عالی جناب، ہز ایکسی لینسی وائسرائے ہند سے میرے حق میں سفارش کریں گے کیا میں یہ آس لگا سکتا ہوں؟‘

 رہائی اور وفاداری

رحم کی کئی درخواستوں کے بعد ساورکر کو آخر میں دو مئی، 1921 کو انڈمان و نکوبار کی سیلولر جیل سے پونے کی یرودا سینٹرل جیل واپس منتقل کر دیا گیا۔

یہاں سے پھر انہیں چھ جنوری، 1924 کو رتناگری ضلع سے باہر نہ جانے اور پانچ سال تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہ لینے کی شرط پر رہا کردیا گیا۔

رہائی کے بعد ساورکر نے نہ صرف جدوجہد آزادی میں حصہ لینے سے گریز کیا بلکہ انگریز حکومت سے بھرپور وفاداری نبھائی۔

ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں کہ اپنی قید کے دوران ساورکر نے انگریز حکومت کو کم از کم پانچ رحم کی درخواستیں دیں اور اپنی زندگی میں 20 کے قریب حلف نامے لکھے۔

’انہیں دو بار 50 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن وہ سیلولر جیل سے محض ساڑھے 10 سال بعد ہی باہر آ گئے کیوں کہ اس نے انگریز حکومت کی مکمل بیعت کر لی۔

’جیل سے رہا ہونے کے بعد ساورکر کو انگریز حکومت ماہانہ پچاس روپے بطور وظیفہ دیتی رہی اور انہوں نے کئی بار وظیفے میں اضافے کی درخواست بھی دی۔

’ساورکر کی انگریز حکومت سے وفاداری نبھانے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب نیتا جی (سبھاش چندر بوس) انگریزوں سے لڑنے کے لیے اپنی فوج تیار کر رہے تھے یہ شخص انگریز فوج میں نوجوانوں کو بھرتی کرا رہا تھا۔

’ساورکر کی قیادت میں ہندو مہا سبھا نے انگریز فوج میں بھرتی کے سینکڑوں کیمپ لگائے اور اس نے خود کہا تھا کہ ہم نے ایک لاکھ لوگ بھرتی کیے۔

’1942 کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران جب کانگریس پر پابندی عائد تھی تو ساورکر نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر سندھ، بنگال اور شمال مغربی صوبے میں سرکاریں چلائیں۔ اُس وقت صرف دو جماعتوں پر پابندی نہیں تھی ایک ہندو مہا سبھا اور دوسری مسلم لیگ۔

’انہوں نے نہ صرف ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی مخالفت کی بلکہ ہندوؤں سے کہا کہ وہ حکومت کی نافرمانی نہ کریں۔

’ساورکر ہندوستان میں انگریزوں کے چلے جانے کے اعلان کے بعد نیپال کے ہندو بادشاہ کو اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے طرفدار تھے۔

’اس شخص نے ملکہ برطانیہ کو ٹیلی گرام بھیجا کہ اگر آپ ہندوستان کسی کے حوالے کرنے ہی جا رہے ہیں تو نیپال کے راجا کے حوالے کریں کیوں کہ نیپال کا راجا پوری دنیا کے ہندوؤں کا مہا راجا ہے۔‘

 بی جے پی کے نظریاتی گرو

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ساورکر کو اپنا نظریاتی گرو مانتی ہے اور انہیں احتراماً ’ویر ساورکر‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔

بی جے پی کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے 13 اکتوبر، 2021 کو دعویٰ کیا کہ ساورکر نے انگریزوں کو رحم کی درخواستیں مہاتما گاندھی کی تجویز پر دی تھیں۔

ان کا کہنا تھا: ’ساورکر کے متعلق جھوٹ پھیلایا جاتا ہے۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ انہوں نے رہائی کی خاطر رحم کی درخواستیں پیش کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مہاتما گاندھی نے ان سے یہ درخواستیں پیش کرنے کو کہا تھا۔‘

راجناتھ سنگھ کے اس بیان پر بھارت میں ایک بڑا سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے علاوہ مورخین اور سیاسی مبصرین نے بھی اس بیان کو اصل حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

تاہم راجناتھ سنگھ پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے قید و بند کی صعوبتوں سے پریشان ہو کر انگریز حکومت کو رحم کی درخواستیں لکھنے والے ساورکر کی حرکتوں کو جواز بخشنے کی کوشش کی۔

سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ترجمان میگزین پانچجنیہ کے سابق ایڈیٹر اور مصنف ترون وجے نے ستمبر 2004 میں بھارتی میگزین آؤٹ لک میں لکھا: ’شیواجی (چھترپتی شیواجی مہاراج) کے پرجوش پیروکار کے طور پر ساورکر لڑتے ہوئے مرنا چاہتے تھے۔

’کوئی دوسرا راستہ نہیں سوجھا تو انہوں نے انگریزوں کو چھ خط لکھ کر اپنی رہائی کی درخواست کی۔ لیکن یہ تمام درخواستیں یکسر مسترد کر دی گئیں۔‘

ڈاکٹر شمس الاسلام اپنی کتاب ’ساورکر: متھس اینڈ فیکٹس‘ میں لکھتے ہیں: ’سیلولر جیل کے قیدیوں کی طرف سے انگریز حکومت کو رحم کی درخواستیں لکھنے میں کچھ غلط نہیں تھا۔ درحقیقت یہ ایک اہم قانونی حق تھا جو قیدیوں کو حاصل تھا۔

’دوسری انقلابی شخصیات بھی تھیں جنہوں نے انگریز حکومت کو رحم کی درخواستیں لکھیں۔ جب ریجنلڈ کریڈاک سیلولر جیل کے دورے پر آئے تو ساورکر اکیلے نہیں تھے جنہوں نے ان کے سامنے رحم کی درخواست پیش کی۔

’ساورکر کے علاوہ بھی کئی دوسرے لوگوں نے درخواستیں دیں۔ تاہم یہ صرف ساورکر اور برندرا گھوس تھے جنہوں نے ذاتی آزادی کی خاطر اپنے انقلابی ماضی کو ترک کرنے کی بات لکھی ہے۔

’دوسرے سینکڑوں انقلابی لوگ تھے جو سیلولر جیل اور دیگر جیلوں میں اپنی سزاؤں کی پوری مدت تک قید رہے۔ وہ (ہندو قوم پرست جماعتوں کے رہنما) بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، سکھ دیو، راج گرو اور روشن سنگھ جیسے ہزاروں شہدا پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی رحم کی بھیک مانگی نہ اپنے موقف میں کوئی نرمی لائی۔

’سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ساورکر جیسے بزدل کی تصویر نہ صرف مہاراشٹر کی اسمبلی میں بلکہ بھارتی پارلیمان میں بھی رکھی گئی ہے۔‘

’ہندو مسلمان دو قومیں ہیں‘

ساورکر 28 مئی 1883 کو ناسک کے بھاگور نامی گاؤں کے ایک برہمن ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔

جب ساورکر کی عمر محض 12 سال تھی انہوں نے بمبئی اور پونے میں ہونے والے ہندو – مسلم فسادات کے دوران اپنے سکول کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے گاؤں کی مسجد میں توڑ پھوڑ کی۔

انہوں نے اس کے بارے میں خود ہی لکھا ہے: ’ہم نے اپنے دل کی آواز پر مسجد میں توڑ پھوڑ کی اور اس پر اپنی بہادری کا پرچم لہرایا۔‘

ساورکر نے ابتدائی تعلیم ناسک اور پونے سے حاصل کی اور پھر وہ 1906 میں قانون کی پڑھائی کے لیے لندن چلے گئے۔

انگریزوں کا وفادار بننے سے قبل ساورکر نے 1907 میں 1857 کی پہلی جنگ آزادی پر ’دا انڈین وار آف انڈپینڈنس‘ نامی کتاب بھی لکھی جس پر انگریز حکومت نے پابندی عائد کی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں انہوں نے مسلمانوں کو جنگ آزادی کا ’ہیرو‘ قرار دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سیلولر (کالا پانی) جیل میں قید و بند کے دوران انہوں نے دو اردو غزلیں بھی لکھیں، جو کچھ سال قبل سامنے لائی گئی ان کی ’جیل ڈائری‘ میں اردو رسم الخط میں لکھی پائی گئیں۔

ساورکر نے 1921 اور 1922 کے درمیان ’اسینشلز آف ہندوتوا‘ نامی کتاب لکھی، جس میں انہوں نے ’ہندوتوا‘ کا نظریہ پیش کیا۔ پھر ہندو مہا سبھا کے بااثر رہنما کی حیثیت سے اس نظریے کو فروغ دیا۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ’ہندوتوا نظریے‘ کو ایک ایسے وقت میں سامنے لایا جب انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لیے ایک متحد محاذ کی ضرورت تھی۔

’سینشلز آف ہندوتوا‘ میں ساورکر نے لکھا ہے کہ مسلمان اور مسیحی ’ہندو راشٹر‘ کا حصہ نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کو سنسکرت نہیں آتی، ان کی رگوں میں آرین خون نہیں دوڑتا اور ان کے مقدس مقامات ہندوستان میں نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انگریزی اور مراٹھی زبان میں 38 کتابیں لکھیں۔ تاہم زیادہ مقبول متذکرہ دو کتابیں (دا انڈین وار آف انڈپینڈنس اور اسینشلز آف ہندوتوا) ہی ہیں۔

ڈاکٹر شمس الاسلام کے مطابق ساورکر سیکولر آئین کے خلاف تھے اور ملکی نظام کو ’منوسمرتی‘ نامی مذہبی کتاب پر چلانے کے زبردست حامی تھے۔

’اتنا ہی نہیں وہ ترنگا جھنڈے سے بہت نفرت کرتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ اس کھادی کپڑے سے بنے جھنڈے کو میں کبھی نہیں مانوں گا۔

’ساورکر پہلا شخص ہے جس نے 1937 میں احمد آباد میں ہونے والے ہندو مہا سبھا کے اجلاس میں کہہ دیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں۔ مسلم لیگ نے تو 1940 میں قرارداد منظور کی۔‘

1948 میں ساورکر پر مہاتما گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگا، تاہم انہیں عدالت نے ثبوت نہ ملنے کی بنا پر بری کر دیا۔

ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں: ’اگر ساورکر کی تصویر بھارتی پارلیمان میں نصب کی جا سکتی ہے تو جناح (محمد علی جناح) کی بھی لگنی چاہیے۔

’دونوں دو قومی نظریہ پر یقین رکھتے تھے اور دونوں گاندھی سے نفرت کرتے تھے۔ دونوں نے مل کر سرکاریں چلائیں۔ بلکہ ساورکر کا گاندھی کے قتل میں ہاتھ ہے۔‘

ساورکر 26 فروری، 1966 کو بمبئی میں اپنے گھر میں انتقال کر گئے۔ قبل ازیں انہوں نے یکم فروری، 1966 کو ادویات لینا، خوراک کھانا اور پانی پینا ترک کر دیا تھا۔

موت سے قبل ’آتماہتیا نہیں آتمارپن‘ کے عنوان سے لکھے اپنے ایک مضمون میں ساورکر نے کہا تھا کہ جب ایک انسان میں اپنے سماج کے لیے کام کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے تو بہتر ہے کہ وہ فطری موت کا انتظار کرنے کی بجائے ’آتمارپن‘ اختیار کر کے موت کو دعوت دیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ