برطانوی راج کے دوران ہندوستان پر 450 کھرب ڈالرز کا ڈاکہ

اگر برطانیہ کو دنیا بھر میں کہیں بھی جنگ کرنا پڑتی تھی تو اس کے اخراجات بھی ہندوستانی بجٹ سے پورے کیے جاتے تھے۔

1857 کی جنگِ آزادی کے بعد آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی انگریز افسر ولیم ہڈسن کے ہاتھوں گرفتاری (مونٹگمری مارٹن: پبلک ڈومین)

سامراجیت کے خلاف پہلی آواز دادا جی نورو بھائی

ہندوستان کی آزادی کا پہلا رہنما کون تھا؟ کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا وہ ایک پارسی دادا بھائی نورو جی تھے جو 1886 میں انڈین نیشنل کانگریس کے پہلے صدر بنے تھے۔

برطانوی استعمار کے خلاف پہلی آواز ان کی ایک کتاب بنی جو 1901 میں ’پاورٹی اینڈ اَن بریٹن رول اِن انڈیا‘ کے نام سے شائع ہوئی۔

اس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ تاج برطانیہ ہندوستانی سرمایہ لوٹ کر باہر منتقل کر رہا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان دیوالیہ ہو جائے گا۔

ہر سال ہندوستانی خزانے سے 20 سے 30 کروڑ پاؤنڈ کی رقم نکال لی جاتی ہے۔ اس دور میں ایک ہندوستانی مزدور کی یومیہ اجرت دو سے تین پینس تھی۔ گویا ایک پونڈ ایک مزدور کے 50 دنوں کی اجرت کے برابر تھا۔ نورو جی نے بتایا کہ پوری دنیا میں برطانوی فوج کے اخراجات ہندوستانی آمدن سے پورے کیے جاتے ہیں۔ ہندوستان سے ریلوے کی تمام آمدن برطانیہ لائی جاتی ہے اور اس پر ہندوستانی شہریوں کو کوئی حق نہیں ہوتا۔

دادا بھائی نورو جی کی جانب سے ہندوستانی وسائل لوٹنے کی آوازیں ہی بارش کا وہ پہلا قطرہ ثابت ہوئیں جن پر آگے چل کر ہندوستان کی آزادی کی تحریک اٹھی۔

اس سے پہلے دادا بھائی نورو جی 1892 کے عام انتخابات میں لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب جیت چکے تھے۔ وہ پہلے ہندوستانی بن گئے تھے جو برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

قائد اعظم جب لندن میں پڑھ رہے تھے تو داد بھائی نورو جی کی انتخابی مہم چل رہی تھی۔ قائد اعظم بھی ان کے خیالات سے متاثر ہو کر ان کی انتخابی مہم کا حصہ بن گئے اور بعد ازاں جب نورو جی جیت گئے تو قائد اعظم کچھ عرصہ ان کے سیکریٹری بھی رہے۔ کانگریس میں قائد اعظم کی شمولیت بھی دادا بھائی نورو جی کے طفیل ہی تھی۔

انگریز ہندوستان کو کنگال کر کے نکلا

دادا بھائی نورو جی کی تھیوری کو ہی بھارتی سیاست دان ششی تھرور نے 2016 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’این ایرا آف ڈارک نیس‘ میں شائع کیا۔

اس میں ششی تھرو نے لکھا کہ ’برطانوی معاشی تاریخ دان انگس میڈیسن واضح کرتا ہے کہ اٹھارویں صدی کے اوائل میں عالمی معیشت میں ہندوستان کا حصہ 23 فیصد تھا۔ یہ حصہ اتنا بڑا تھا جتنا کہ آج پورے یورپ کا عالمی معیشت میں ہے۔

’1700 میں مغل بادشاہ اورنگ زیب کے خزانہ میں محصولات کی آمدن 10 کروڑ تھی تو یہ عالمی معیشت کا 27 فیصد تھا۔ لیکن جب برطانیہ ہندوستان سے نکلا تو ہندوستان کا عالمی معیشت میں حصہ صرف تین فیصد رہ گیا تھا۔

’وجہ عام فہم تھی کہ ہندوستان پر برطانوی مفادات کے لیے حکومت کی گئی۔ برطانیہ کے 200سالہ عروج کو اس کی ہندوستانی لوٹ کھسوٹ سے پروان چڑھایا گیا۔‘

ششی تھرور کی کتاب میں تاج برطانیہ کی لوٹ مار کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے سری نگر میں ریشم کی چار ہزار دکانیں بند ہوئیں، بنگال کی کھڈیاں جن کا بنا ہوا کپڑا دنیا کے رؤسا فخر سے پہنتے تھے کیسے بند ہوئیں۔

ہندوستان کی جہاز رانی کی صنعت کیسے تباہ کی گئی۔ ششی تھرور کی اس کتاب کے مندرجات ابھی تازہ ہی تھے کہ ایک اور انڈین ماہر معیشت اتسا پٹنائیک نے2018 میں نئی معلومات دے کر حیران کر دیا۔

آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والی اتسا پٹنائیک جواہر لا ل نہرو یونیورسٹی میں معیشت کے استاد کی حیثیت سے 2010 میں ریٹائر ہوئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر ہندوستانی سمجھتے ہیں کہ صرف کوہ نور ہیرا ہی برطانوی چرا کر لے گئے تھے جبکہ درحقیقت کوہ نور ہیرا تو ایک علامت ہے اور برطانیہ نے جس طرح ہندوستان کے وسائل پر ہاتھ صاف کیا ہے وہ ان اندازوں سے کہیں زیادہ ہے جو اس سے پہلے قائم کیے گئے تھے۔

پیسہ ہندوستان کا ترقی برطانیہ کی

اتسا پٹنائیک کہتی ہیں کہ برطانیہ نے اپنے دو سو سالہ عہد اقتدار میں 1765 سے 1938 کے درمیان 92 کھرب (9.2 ٹریلین: ایک ٹریلین میں دس کھرب ہوتے ہیں) پاؤنڈ کی رقم ہندوستان سے باہر منتقل کی جس کی ڈالروں میں مالیت 446 کھرب (4.46 ٹریلین) ڈالرز بنتی ہے۔

کیونکہ برطانوی عہد میں ایک پاؤنڈ 4.8 ڈالرز کے برابر تھا۔ اگر آج کے حوالے سے اس رقم کا اندازہ لگایا جائے تو 2021 میں برطانیہ کا جی ڈی پی 2.86 کھرب ڈالرز سالانہ بنتا ہے۔ آج بھی یہ رقم برطانیہ کل سالانہ پیداوار سے 155 گنا زیادہ بنتی ہے۔

ہندوستان کی تمام برآمدات کا پیسہ لندن جاتا تھا اور پھر یہ پیسہ ہندوستان کو پانچ فیصد سود پر دیا جاتا تھا۔ یہ سارا پیسہ جو ہندوستان سے نکالا گیا اگر یہیں صرف کیا جاتا تو ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوتا۔

یہ بات بھی حیران کن ہے کہ 1900 سے 1946 کے درمیان ہندوستان کی فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا حالانکہ 1929 تک ہندوستان برآمدات کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر تھا۔

جب یہ تمام پیسہ ہندوستان سے برطانیہ بھیجا جا رہا تھا تو اس وقت ایک عام ہندوستانی شہری عدم غذائیت کی وجہ سے مر رہا تھا۔

ہندوستان جسے دنیا کی فوڈ باسکٹ کہا جاتا تھا وہاں بہت زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے لوگوں کے لیے پیٹ بھر کر کھانا مشکل ہو گیا تھا۔ 1900 میں ایک عام ہندوستانی سالانہ اوسطاً 200 کلو خوراک کھاتا تھا جو دوسری جنگ عظیم میں کم ہو کر 157 کلو رہ گئی تھی جس میں مسلسل کمی ہوتی رہی اور یہ 1946 میں مزید گھٹ کر 137 کلو رہ گئی۔

ہندوستان میں 1911 میں اوسط عمر محض 22 سال تھی۔ بنگال میں جب 1770 کا قحط پڑا تو خود انگریزوں کا کہنا تھا کہ تین کروڑ کی آبادی میں سے ایک کروڑ بھوک سے مر گئے۔

1946 میں ہندوستان جس زبوں حالی کا شکار تھا اس کی کوئی مثال آج کی دنیا میں نہیں ملتی۔

سرمائے کے انخلا کا منظم نظام

ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب 1765 میں بنگال میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے اختیارات حاصل کیے تو ضلع کے منتظم کو کلکٹر کا نام دیا جس کا مقصد ہر صورت ٹیکسوں کے اہداف کا حصول تھا اور اس مقصد کے لیے وہ ظلم کی تمام حدیں پھلانگ جایا کرتا تھا حتی ٰ کہ اس سے پہلے کے نواب بھی ٹیکسوں کی وصولی میں اتنے جابر نہیں تھے، جس کی وجہ سے غریب غریب تر ہوتا گیا۔

جتنا ٹیکس ایسٹ انڈیا کمپنی اکٹھا کرتی تھی اس کا تیسرا حصہ اجناس کی صورت میں کسانوں سے وصول کر کے اسے برطانیہ بر آمد کر دیا جاتا تھا جس کا مطلب ہے کہ برطانیہ کو یہ اجناس بھی مفت مل جاتی تھیں جہاں سے وہ اپنی ضرورت سے زائد اجناس دیگر ممالک کو بر آمد کر دیتا تھا۔

ان برآمدات سے جو پیسہ ملتا تھا اس سے برطانیہ اپنی درآمدات کا بل ادا کرتا تھا۔ در حقیقت یہی وہ پیسہ تھا جس سے برطانیہ میں صنعتی انقلاب آیا تھا۔ جب 1858 میں اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی سے تاج برطانیہ کے پا س آیا تو اس نظام میں اتنی تبدیلی آئی کہ برآمدات کا اختیار مقامی لوگوں کو دے دیا گیا مگر اس شرط کے ساتھ تمام ادائیگیاں براستہ لندن ہوں گی۔

اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ جس کسی نے ہندوستان سے کوئی چیز خریدنی ہوتی اسے ادائیگیوں کے لیے کونسل پیپرز درکار ہوتے تھے۔ یہ ایک علیحدہ طرز کی پیپر کرنسی تھی جسے جاری کرنے کا اختیار برطانوی بادشاہ کے پاس تھا۔

اس کرنسی کو حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ لندن سے اسے سونے یا چاندی کے عوض خریدا جائے۔ جس کی وجہ سے تاجر حضرات لندن میں سونے اور چاندی کے عوض یہ کرنسی خریدتے تھے اور پھر یہ کرنسی وہ ہندوستانی بر آمد کنندگان کو دیتے تھے۔

جب ہندوستانی بر آمد کنندگان ان بلوں کو کالونیل آفس سے کیش کراتے تو انہیں مقامی کرنسی میں ادائیگی کی جاتی تھی۔ اس کالونیل آفس میں سارا پیسہ ہندوستانیوں کے ٹیکسوں کا ہوتا تھا۔

یہ ہندوستان سے سرمائے کے انخلا کا ایک منظم فراڈ تھا جس کی وجہ سے ہندوستان غریب سے غریب ہوتا گیا۔

امیر ممالک کی بنیادوں میں غریب ممالک کا خون

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اتسا پٹنائیک کے بقول برطانیہ نے ہندوستان کو ترقی نہیں دی بلکہ یہ ہندوستان تھا جس کی وجہ سے برطانیہ نے ترقی کی۔

جدید دنیا کی امارت کی بنیادیں ان کی نو آبادیات کے پیسے پر کھڑی ہیں۔ یہ پیسہ غریب ملکوں سے لوٹا گیا۔

1780سے 1820 کے دوران جب برطانیہ میں صنعتی انقلاب آیا تو برطانیہ نے ہندوستان اور ویسٹ انڈیز سے جو پیسہ نکالا وہ برطانیہ کے جی ڈی پی کا چھ فیصد تھا۔

اسی پیسے سے برطانیہ نے امریکہ اور یورپ میں سڑکیں اور ریلوے لائنیں بچھائیں۔ حتیٰ کہ اگر برطانیہ کو کہیں جنگ کرنی پڑی تو اس کے اخراجات بھی ہندوستانی بجٹ سے پورے کیے گئے۔

450 کھرب ڈالرز کی حیثیت آج کتنی ہے؟

اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ برطانیہ نے دو سو سال میں ہندوستان سے کس قدر سرمایہ سمیٹا اور ا س کی قدر آج کی مارکیٹ میں کتنی ہے تو آپ شاید یہ جان کر حیران ہو جائیں کہ فوربز میگزین کے مطابق اگر آپ امریکہ کے پورے گھر خرید لیں تو اس کی قیمت 362 کھرب ڈالرز ہے اور اگر اس کو جی ڈی پی میں دیکھیں تو دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں امریکہ 205 کھرب اور چین 136 کھرب ڈالرز کو اکٹھا کیا جائے تو بھی 341 کھرب ڈالرز بنتے ہیں۔

انڈیا کا جی ڈی پی آج بھی 26 کھرب ڈالرز بنتا ہے، پاکستان کا جی ڈی پی 263 ارب ڈالرز جبکہ بنگلہ دیش کا 324 ارب ڈالرز ہے اس طرح یہ تینوں ممالک جو تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان تھے ان کا آج بھی کل جی ڈی پی تقریباً34 کھرب ڈالرز بنتا ہے۔ جبکہ اگر آج آپ پورے برطانیہ کے گھر خریدنا چاہیں تو ا س کی کل مالیت 92 کھرب پاؤنڈ یعنی تقریباً 120 کھرب ڈالرز کے قریب بنتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ