شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے 12 سے 16 اکتوبر 1971 کو ایران کی ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن منایا جس میں 90 سے زائد ملکوں کے سربراہان شریک ہوئے۔
اس تقریب کو آج بھی دنیا کی اس وقت کی سب سے مہنگی اور شاہانہ تقریب قراردیا جاتا ہے جسے شاہِ ایران اور ان کی ملکہ فرح دیبا نے نہ صرف اپنی بلکہ ایران کے تشخص اور عظمت کے طور پر منعقد کیا تھا۔
جشن کے محض پانچ سال بعد پال ایرڈ مین کا ناول چھپا The Crash of 79 جس میں دعویٰ کیا گیا کہ شہنشاہ ایران کی حکومت 1979 میں ختم ہو جائے گی۔
پال ایرڈ مین کون تھے اور شاہ کے بارے میں ان کی پیشں گوئی حرف بہ حرف کیسے درست ثابت ہوئی؟
پال ناول نگار بننے سے پہلے صحافی تھے اور واشنگٹن پوسٹ کی ادارتی ٹیم کا حصہ تھے۔ پھر پال بینکر بن گئے اور سوئٹزر لینڈ جا کر بینکاری میں نام کمایا۔
اسی دوران ان پر بینکاری شعبے کے ظابطوں کی خلاف ورزی پر مقدمہ چلا اور جیل ہو گئی۔ جیل میں وہ لکھاری بن گئے۔ وہ حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے جنہیں مالیاتی شعبے کا گرو بھی کہا جاتا تھا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ انہوں نے اپنے ناول میں شہنشاہ ایران کے بارے میں جو لکھا تھا ویسا ہی نہ صرف ہوا بلکہ عین اسی وقت پر ہوا جس کی نشاندہی انہوں نے اپنے ناول میں کی تھی۔
شاہ ایران دعویٰ کرتے تھے کہ ایران بہت جلد تیسری دنیا سے پہلی دنیا میں شامل ہونے والا ہے۔
دوسری جانب ان کی پالیسیوں کی قدامت پرست طبقے نے ہی نہیں بلکہ ایران کے قبائلی رہنماؤں اور قوم پرستوں نے بھی مخالفت کی جو یہ سمجھنے لگے کہ شاہ کے اقدامات صرف اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں۔
بڑے منصوبوں اور صنعتوں میں غیرملکی سرمایہ کاری کو قومی وسائل لوٹنے سے تعبیر کیا جانے لگا۔ شاہ کے خلاف علما، بائیں بازو کے قوم پرست اور انقلابی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے، جن کو دبانے کے لیے شاہ نے جابرانہ قوانین متعارف کروائے۔
ان کی خفیہ پولیس ساواک نے مخالفین پر جبر کے پہاڑ توڑ دیے لیکن پھر وہ وقت آیا جب شاہ کو اپنے خاندان سمیت ملک چھوڑنا پڑا۔
اگرچہ بعد میں صدر ٹرمپ نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کر دی لیکن اس دوران ایران کے شہزادے رضا پہلوی مسلسل خبروں میں رہے۔
رضا پہلوی کون ہیں اور کیا وہ ایران میں اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کر سکتے ہیں؟
اس حوالے سے زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایسے لوگ ایران میں بڑی تعداد میں ہیں جو شاہ کے دور کو مثالی سمجھتے ہیں لیکن دوسری طرف ایرانی قوم کا وہ حصہ، جو موجودہ رجیم سے خوش نہیں، وہ بھی بادشاہت کی واپسی کا حامی نہیں بلکہ وہ اپنے لیے ایک آزاد جمہوریت چاہتے ہیں۔
تاہم رضا پہلوی صرف ایک عام شہزادے نہیں جو اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ ایران کی موجودہ رجیم کے خلاف مغرب میں ایک توانا آواز گردانے جاتے ہیں۔ حالیہ کشیدگی کے دوران تاہم مغربی میڈیا نے انہیں کافی ائر ٹائم دیا۔
65 سالہ رضا پہلوی کہتے پھرتے ہیں کہ ان کے والد کے دور کا ایران آج کا جنوبی کوریا تھا جسے موجودہ رجیم نے شمالی کوریا بنا دیا۔ وہ ایران کے متعلق تین کتابوں کے مصنف بھی ہیں جنہیں 1967 میں ایران کا ولی عہد نامزد کیا گیا تھا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب ایران عراق جنگ جاری تھی تو انہوں نے خمینی حکومت سے ایران کی جانب سے بطور پائلٹ لڑنے کی پیشکش کی جسے قبول نہیں کیا گیا۔
رضا پہلوی ایران میں آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل ہیں جس کے لیے وہ عدم تشدد کے حامی ہیں۔
رضا پہلوی کے چار بہن بھائی تھے۔ شہناز، فرح اور لیلیٰ جبکہ ایک بھائی علی رضا۔
لیلیٰ اور علی رضا جلا وطنی میں وفات پا چکے ہیں۔ علی رضا نے 2011 میں خود کشی کر لی جبکہ لیلیٰ پہلوی 2001 میں منشیات کی زیادتی کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔
ان کے والد رضا شاہ پہلوی 1980 میں مصر میں انتقال کر گئے تھے جبکہ ان کی بیوی فرح پہلوی فرانس میں مقیم ہیں۔
امریکہ رجیم چینج سے پیچھے کیوں ہٹ گیا؟
امریکہ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک میں اپنی مرضی کے حکمرانوں کو لانے اور اپنے مخالفین کو رخصت کرنے میں شہرت رکھتا ہے اور ماضی میں ایک بار ایران میں مصدق حکومت کا تختہ الٹنے میں ملوث رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران میں روشن خیال قوتوں کے پرتشدد مظاہروں کا الزام بھی ایرانی قیادت امریکہ پر لگاتی آئی ہے۔ امریکہ انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادیٔ اظہار رائے کی اپنی تمام رپورٹوں میں ایرانی قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتا آیا ہے اور گذشتہ کئی سالوں سے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں بھی لگا رکھی ہیں۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے حالیہ اسرائیل ایران تنازعے میں ایران میں رجیم چینج کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
اس کی سب سے بڑی وجہ ماہرین صدر ٹرمپ کو قرار دیتے ہیں جو جنگ مخالف اور ’امریکہ پہلے‘ کا بیانیہ لے کر اقتدار میں آئے۔ ایک موقعے پر جب وہ جنگ میں شامل بھی ہوئے تو اس انداز سے کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر ایک حملے کے فوراً بعد پیچھے ہٹ گئے۔
قطر میں واقع امریکی اڈے پر ایران کے جوابی حملے کے بعد وہ چاہتے تو یہ جنگ پھیلا سکتے تھے لیکن اس صورت میں یہ جنگ طوالت اختیار کر لیتی اور اس کے اگلے مرحلے پر امریکہ کی زمینی افواج کو بھی اس میں شامل ہونا پڑتا۔
ایران کی آبادی نو کروڑ 20 لاکھ اوررقبہ 16 لاکھ 48 ہزار 193 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے پاس پانچ لاکھ حاضر سروس فوج ہے۔
اتنا وسیع وعریض ملک مختلف عقائد رکھنے کے ساتھ کثیر نسلی بھی ہے۔
اہل فارس کل آبادی کا 60 فیصد، آذربائیجانی 16 اور کرد 10 فیصد ہیں، اس لیے جہاں پر پہلے ہی حالات سیاسی اور نسلی تفاوت بہت گہرے ہیں وہاں پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرنا بہت مشکل ہو گا۔
رجیم چینج کے لیے افغانستان، عراق اور لیبیا کے مثالیں بھی شاندار نہیں تھیں جن میں امریکہ کو خاصا جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ایرانی عوام میں ان کی مقبولیت بھی کوئی خاص نہیں جو امریکی عزائم میں ان کو مدد دیتی۔
اس لیے شاید امریکہ اس تاریخ کو دہرانا نہیں چاہتا اور اس نے یہ اختیار ایک بار پھر ایرانی عوام پر چھوڑ دیا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔