ایران اور اسرائیل ہمیشہ سے دشمن نہیں تھے۔ حالیہ جنگ کا پس منظر دہائیوں پر پھیلا ہوا ضرور ہے تاہم زیادہ پرانی بات نہیں جب ایران، اسرائیل کے شراکت دار کے طور پر خطے میں پہچانا جاتا تھا۔
تیل کی فروخت سے دفاعی تعاون تک دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوا کرتے تھے۔
مشترکہ تہذیبی وراثت کے اظہار کے لیے ایک دوسرے کے ہاں ثقافتی طائفے بھی بھیجے جاتے تھے۔
ایران ترکی کے بعد دوسرا اسلامی ملک تھا، جہاں اسرائیل کا سفارت خانہ موجود تھا۔ شاہ ایران سمجھتے تھے کہ امریکہ کی خوشنودی اسرائیل کے ساتھ دوستی سے مشروط ہے۔
دہائیوں پہلے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی حمایت میں ترکی اور ایران کا ساتھ دراصل یہ سمجھنے کے لیے کافی تھا کہ خطہ عرب اور غیر عرب میں تقسیم ہو چکا تھا، جسے اسرائیل کی ایک بڑی سفارتی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔
اسرائیل اور ایران کا تعلق محبت اور نفرت سے عبارت
ایران، قدیم تہذیبوں کا گہوارہ ہے جہاں یہودی گذشتہ 2700 سال سے آباد چلے آ رہے ہیں۔
بابل کے بادشاہ بخت نصر نے 586 ق م میں یروشلم کو تباہ و برباد کرتے ہوئے ہیکل سلیمانی کو نذرِ آتش کر دیا اور وہاں کے یہودیوں کی بڑی تعداد کو قیدی بنا کر بابل لے آیا۔
ایران میں ہخامنشی سلطنت کے بانی کوروش کبیر (جنہیں سائرس اعظم بھی کہا جاتا ہے اور جن کے بارے میں ایک رائے ہے کہ وہ حضرت ذوالقرنین تھے) نے 539 ق م میں بابل فتح کر لیا تو انہوں نے یہودیوں کو یروشلم واپس بھیج کر ہیکلِ سلیمانی کی تعمیرِ نو شروع کروائی۔
ابھی ہیکل کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی تھی کہ کوروش بزرگ کو 529 ق م میں قتل کر دیا گیا، جس کے بعد ان کا بیٹا تخت نشین ہوا، جس کا رویہ یہودیوں کے ساتھ خوشگوار نہیں تھا۔
اس لیے انہوں نے ہیکل کی تعمیر روک دی جو بعد میں بادشاہ داریوش کے دور میں مکمل ہوا، جس کے لیے ان کی بہو ملکہ استر کا کردار کلیدی تھا، جنہوں نے یہودیوں کی جان بخشی کروائی وگرنہ بادشاہ نے ان کے قتلِ عام کا حکم دے دیا تھا۔
ملکہ استر کا مقبرہ ہمدان ایران میں واقع ہے، جہاں دنیا بھر سے یہودی بڑی تعداد میں آتے ہیں اور ان کے مقبرے کی دیوار کے ساتھ گریہ کرتے ہیں۔
ایران کے ساتھ یہودیوں کی اچھی بری دونوں یادیں وابستہ ہیں جو صدیوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔
اسلام کی آمد کے بعد یہودی ناپسندیدہ قرار دیے گئے
مسلمانوں نے ساتویں صدی میں ایران کو فتح کیا تو ایران میں ڈھائی سو سالہ ساسانی بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا اور یہودی جو کئی ایرانی شہروں میں اکثریت میں تھے، ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا۔
حضرت عمر نے یہودیوں پر حکومتی اور فوجی عہدے ممنوع قرار دے دیے اور ساتھ ہی انہیں پابند کیا گیا کہ وہ اپنے بازو پر پیلے رنگ کا کپڑا باندھ کر رکھیں تاکہ ان کی شناخت میں آسانی ہو۔
1501 سے 1736 کے درمیان ایران پر صفویوں کی حکومت تھی، جس کے دوران یہودیوں سمیت اقلیتوں کے لیے سخت گیر پالیسیاں لاگو کی گئیں۔
قاجار خاندان جس نے 1789 سے 1925 تک ایران پر حکومت کی، کے دور میں بھی اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین برقرار رکھے گئے۔
اس دوران 1839 میں مشہد کے یہودیوں کو جبری طورپر مسلمان بنا لیا گیا اور جنہوں نے انکار کیا، انہیں قتل کر دیا گیا۔
اسی دور میں کچھ یہودی خاندانوں نے بھاگ کر پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ہاں پناہ لے لی تھی۔
پہلوی خاندان جس نے 1925 سے 1979 تک ایران پر حکومت کی، ان کے دور میں ایران میں مذہبی اقلیتوں کو آزادیاں دی گئیں۔ یہودیوں کو قومی دھارے کا حصہ بنایا، جس کی وجہ سے تجارت، طب اور ادویات سازی کے شعبوں میں یہودی نمایاں طور پر ابھرے۔
1945 تک ایران میں تقریباً ایک لاکھ یہودی آباد تھے، جو آج کم ہو کر8000 کے قریب رہ گئے ہیں۔ پھر بھی اسرائیل کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی ایران میں ہی ہے۔
ایران اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا اسلامی ملک
اسرائیل کے قیام کے بعد جن تین اسلامی ممالک نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا، ان میں ترکی پہلے، ایران دوسرے اور مصر تیسرے نمبر پر تھا۔
ایران اقوامِ متحدہ کی1947 میں بننے والی اس 11 رکنی خصوصی کمیٹی کا بھی رکن تھا، جس نے برطانیہ کے انخلا کے بعد فلسطین کے مسئلے کو دیکھنا تھا۔ ایران، یوگو سلاویہ اور انڈیا سمیت تین ممالک نے اقوامِ متحدہ کے اس منصوبے کے خلاف ووٹ دیا تھا، جنہوں نے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کی تھی اور اس کے متبادل منصوبہ پیش کیا تھا کہ فلسطین کو یہودی اورعرب حصوں پر مشتمل ایک فیڈریشن بنا دیا جائے۔
جب 1948 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑی تو اس وقت ترکی کے بعد شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔
1951 میں جب مصدق ایران کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا، جس پر برطانیہ کی اجارہ داری تھی۔
اسی سلسلے میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی محدود کر دیے کیونکہ وہ اسرائیل کو خطے میں مغربی مفادات کے نمائندے کے طور پر دیکھتے تھے۔
1953 میں امریکہ اور برطانیہ کی حمایت یافتہ ایک بغاوت کے نتیجے میں مصدق حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو شاہ کی حکومت بحال کر دی گئی۔
اسرائیل نے 1970 میں تہران میں اپنا سفارت خانہ کھول لیا اور اس کے جواب میں تہران نے بھی اپنا سفیر اسرائیل بھیج دیا۔
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو فروغ ملا۔ ایران اسرائیل کو سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والا ملک بن گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان پہلے اسرائیل اور پھر یورپ تک تیل کی پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ ہو گیا۔
1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں ایرانی تیل کا کردار
ایران اسرائیل گہرے تعلقات دراصل اسرائیلی وزیراعظم داوید بن گوریون کی جانب سے 1950 کی دہائی میں متعارف کرائے جانے والے پیری فیری ڈاکٹرائن کے ارد گرد گھومتے تھے، جس کا مقصد اسرائیل کے خطے کے غیر عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا تھا، جو مشرق وسطیٰ میں اس کے وجود کے مخالف تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1956 کی سویز جنگ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید بڑھے کیوں کہ مصر کے جمال عبد الناصر فلسطین کی آزادی اور ’پین عرب ازم‘ کے حامی تھے۔
دوسری جانب عراق مخالف کردوں کی مدد میں بھی ایران اور اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیاں شامل تھیں۔ بعد میں ترکی بھی اس میں شامل ہو گیا۔
امریکہ میں کینیڈی حکومت شاہ ایران سے خوش نہیں تھی، اس لیے بھی شاہ ایران اسرائیل کی حمایت چاہتے تھے، جو کینیڈی کے ساتھ شاہ کے تعلقات بہتر بنا سکتا تھا۔
1973 میں عرب ممالک نے اسرائیل کو امریکی اسلحے کی فراہمی پر احتجاج کے لیے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور امریکہ و اسرائیل سمیت کئی ممالک کو تیل کی سپلائی بند کر دی۔
ایسے موقعے پر شاہ ایران ہی تھے جنہوں نے اسرائیل کو تیل کی کمی نہیں ہونے دی، ورنہ اسرائیل کے لیے مصر اور شام سے جنگ جیتنا تو درکنار لڑنا ہی مشکل ہو جاتا۔
ایرانی تیل کے بدلے اسرائیلی اسلحہ
1977 میں دونوں ممالک نے ’پراجیکٹ فلاور‘ کے نام سے ایک عسکری منصوبہ بنایا، جس کا مقصد جدید میزائل سازی تھا۔
یہ معاہدہ دراصل ان چھ معاہدوں میں سے ایک تھا جو دونوں ممالک نے ’تیل کے بدلے اسلحہ‘ کی بنیاد پر کیے، جن کی مجموعی مالیت 1.2 ارب ڈالر تھی۔
حیرت کی بات ہے کہ جب ایران میں 1979 میں اسلامی انقلاب آیا تو بھی دونوں ممالک میں تعلقات منقطع نہیں ہوئے کیونکہ اسلامی انقلاب کے فوراً بعد ہی عراق نے ایران پر حملہ کر دیا تھا اور ایران کو اسلحے کی شدید کمی کا سامنا تھا۔
شاہ ایران کے حامیوں کی بڑی تعداد نے فوج کو خیرآباد کہہ دیا تھا۔ ان حالات میں عراق نے ایران پر 1980 میں حملہ کیا تو اسے امریکہ، روس اور عرب ممالک کی مدد بھی حاصل تھی۔
بظاہر ایران کی نئی قیادت اسرائیل کے خلاف تھی مگر عراق کے خلاف اسرائیل کی ضرورت کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت جاری رہی، حالانکہ انقلاب کے روحِ رواں امام خمینی امریکہ کو ’بڑا شیطان‘ اور اسرائیل کو ’چھوٹا شیطان‘ کہتے تھے۔
مگر اسی اسرائیل سے ایران نے 1983 میں کروڑوں ڈالر کا اسلحہ خریدا۔ بات صرف یہیں پر نہیں رکی بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجی کمانڈروں کی تربیت بھی اسرائیل کی فوج نے کی۔
اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز سمجھتے تھے کہ امام خمینی کا دور عارضی ہو گا، اس لیے اسرائیل کو ایران کی مدد جاری رکھنی چاہیے، لیکن ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ایران کی جانب سے عرب ممالک کی شیعہ آبادی پر توجہ مرکوز کی گئی۔
تہران میں اسرائیل کا سفارت خانہ پی ایل او کو دے دیا گیا اور مشرق وسطیٰ میں شیعہ عسکری تنظیموں کو کھڑا کیا گیا، جس کے بعد ایران اور اسرائیل جو کبھی مشرقِ وسطیٰ میں قریبی اتحادی سمجھے جاتے تھے، ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔