19 ستمبر 1960 سے 23 اپریل 2025 تک، سندھ طاس معاہدے کو تقریباً 65 سال ہو چکے ہیں۔ اس دوران پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو مکمل اور ایک آدھی جنگ بھی ہوئی مگر یہ معاہدہ اپنی جگہ برقرار رہا لیکن پچھلے ماہ پہلگام واقعے کے بعد انڈیا نے اسے معطل کر دیا۔
نریندر مودی 2014 کی اپنی انتخابی مہم کے دوران اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر وہ برسر اقتدار آ گئے تو سندھ طاس معاہدے کو ختم کر دیں گے کیونکہ ان کے بقول اس میں انڈین مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔
اپنی وزراتِ عظمیٰ کے پہلے دونوں ادوار میں وہ یہ کام نہیں کر سکے مگر تیسرے دور میں انہوں نے پہلگام واقعے کو بنیاد بناتے ہوئے یہ کام کر دیا۔ سندھ طاس معاہد کیا ہے اور یہ کن حالات میں ہوا تھا، اس حوالے سے صدر ایوب نے اپنی خود نوشت ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘ میں تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو پاکستان کی بقا مشکل ہو جاتی۔
سندھ طاس معاہدہ 85 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی دستاویز ہے، جو اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے اور جسے کامیاب سفارت کاری کی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
انڈیا سے معاہدہ کرنا پاکستان کی مجبوری کیوں بنا
انڈیا نے یکم اپریل 1948 کو ہی پاکستان کے حصے کا پانی روک لیا، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ ہو گئے۔
پاکستان میں اس مسئلے نے عوامی غیظ و غضب کی شکل اختیار کر لی۔ لوگ کہنے لگے کہ بھوک سے مرنے سے بہتر ہے کہ وہ انڈیا سے جنگ کرتے ہوئے مر جائیں۔
؟تقسیمِ ہند سے پہلے بھی سندھ کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ موجود تھا۔ تب یہ مسئلہ پنجاب اور سندھ کے صوبوں کے درمیان تھا، لیکن تقسیمِ ہند کے بعد یہ مسئلہ دو ملکوں کے درمیان وجہ تنازع بن گیا۔ پنجاب میں چھ دریا بہتے تھے اور ان سے منسلک نہری نظام کو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام گردانا جاتا تھا۔ پاکستان ان دریاؤں کے زیریں حصہ میں تھا، اس لیے پانی کا قدرتی بہاؤ نیچے کی طرف تھا، لیکن پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں دو بڑی نہروں کے ہیڈ ورکس ہندوستان میں ہی رہ گئے، جس سے پانی کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہو گیا کیونکہ
اردو کے چوٹی کے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’یزید‘ اسی موضوع پر ہے، جس میں لوگ آپس میں بحث کر رہے ہیں کہ انڈیا نے پانی بند کر دیا ہے، اس لیے اس سے جنگ کر کے پانی حاصل کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد جس میں وزیر خزانہ غلام محمد اور پنجاب کے دو سینیئر وزرا ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات شامل تھے، دہلی جا کر پنڈت جواہر لال نہرو سے ملے۔
نہرو نے کہا: ’یہ پانی ہمارا ہے اور اگر آپ کو یہ پانی لینا ہے تو اس کے لیے آپ کو ہمارے ساتھ معاہدہ کرنا پڑے گا کہ اس پانی پر پاکستان کا حق نہیں ہے اور جب تک آپ متبادل انتظام نہیں کر لیتے اس وقت تک ہم آپ کو پانی دے سکتے ہیں۔‘
پنجاب کے دونوں وزیروں نے کہا کہ ’یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ پانی صدیوں سے اوپر سے نیچے کی طرف بہہ کر آ رہا ہے، آپ اسے کیسے بند کر سکتے ہیں؟‘
غلام محمد کے کہنے پر پاکستان نے انڈیا کے ساتھ ایک انٹر ڈومینین معاہدہ کر لیا لیکن یہ ایک عارضی حل تھا۔ دونوں جانب سے اس مسئلے پر کشیدگی بڑھتی رہی اور 1955 تک دونوں ملکوں میں جنگی صورت حال پیدا ہو گئی۔
صدر ایوب انڈیا کے ساتھ سمجھوتے کے حق میں کیوں تھے؟
صدر ایوب اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ ’مجھے اندازہ تھا کہ انڈیا کی فوج ہم سے تین گنا ہے، اس لیے مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ انڈیا سے سمجھوتہ کر لیا جائے، خواہ اس میں ہمیں خسارہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو سب کچھ ہی کھو بیٹھیں گے۔‘
1958 کا مارشل لا، جسے وہ ’انقلاب‘ لکھتے ہیں، کے نفاذ کے بعد انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس مسئلے سے تفصیلی آگاہی حاصل کی۔ اس وقت پاکستان میں کچھ لوگ اور بالخصوص پانی کے ماہرین صدر ایوب کی سخت مخالفت کر رہے تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ صدر ایوب انڈین دباؤ میں آ کر پاکستان کے مفادات کو قربان کر رہے ہیں۔
صدر ایوب لکھتے ہیں کہ ’میں نے ان افراد کو لاہور کے گورنمنٹ ہاؤس میں بلایا اور انہیں متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں اپنے حقوق سے دست بردار ہو جانا چاہیے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ عملاً کیا ممکن ہے۔ اگر ہمیں کوئی ایسا حل دیا جاتا ہے جس کے ذریعے ہم زندہ رہ سکیں تو اسے منظور نہ کرنا ہماری سخت بے وقوفی ہو گی۔
’میں نے شرکا کو تنبیہ کی کہ اگر کسی نے میری پالیسی میں دخل دیا تو میں اسے خود دیکھ لوں گا کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عجب نہیں کہ ملک کا ہی خاتمہ ہو جائے، اس لیے اس بارے میں آپ کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ صدر ایوب مزید لکھتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ وہ میرا مطلب سمجھ گئے تھے۔‘
تربیلا اور منگلا ڈیم کا قیام سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے ہوا
19 ستمبر 1960 کو کراچی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے لیے انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔ منصوبے پر صدر ایوب، نہرو اور ورلڈ بینک کے نائب صدر آئلف نے دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت تین دریا ستلج، بیاس اور راوی انڈیا کے پاس، جہلم، چناب اور سندھ پاکستان کے پاس چلے گئے، البتہ انڈیا کو اجازت دی گئی کہ وہ اسے اپنے زیر قبضہ کشمیر، مشرقی پنجاب اور ہما چل پردیش کے منبع کی طرف کے علاقوں میں محدود طور پر استعمال کر سکے گا۔
سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے دس سال کی عبوری مدت مقرر کی گئی، کیونکہ اس دوران پاکستان نے اپنے تین دریاؤں کے ذریعے آبپاشی کے متبادل منصوبے مکمل کرنے تھے۔ اس مدت کو پاکستان کی درخواست پر تین سال کے لیے بڑھایا بھی جا سکتا تھا۔
صدر ایوب لکھتے ہیں کہ ’شروع میں ورلڈ بینک صرف تربیلا ڈیم بنانے پر تیار تھا، اسے بڑی مشکل سے منگلا ڈیم کے لیے راضی کیا گیا کیونکہ اس سے منصوبے پر لاگت 20 کروڑ ڈالر بڑھ گئی تھی۔ مجموعی طور پر ایک ارب سات کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے، جس میں سے 87 کروڑ ڈالر پاکستان میں اور باقی انڈیا میں خرچ کیے گئے تھے۔‘
جن ملکوں نے فنڈز فراہم کیے ان میں امریکہ، دولت مشترکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور مغربی جرمنی شامل تھے۔ عبوری مدت کے دوران پاکستان کو آبپاشی کا ایک نیا نظام تعمیر کرنا تھا، جس سے مغربی دریاؤں کا پانی ان نہروں میں ڈالنا تھا، جو اس سے پہلے مشرقی دریاؤں کے ذریعے چل رہی تھیں۔
منصوبے کے تحت جہلم اور سندھ پر دو بڑے ڈیم اور پانچ چھوٹے پانی کے ذخیرے بنائے جانے تھے جبکہ ان سے آٹھ بڑی نہریں منسلک کی جانی تھیں، جن کی مجموعی لمبائی چار سو میل تھی۔ معاہدے کی رو سے جب تک یہ نظام مکمل فنکشنل نہیں ہو جاتا، انڈیا پابند تھا کہ وہ مشرقی دریاؤں کا پانی جاری رکھے۔
سندھ طاس معاہدے کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی آبپاشی کی ضروریات پوری ہو گئیں بلکہ بجلی کے بڑے منصوبے بھی تعمیر ہو گئے۔ سندھ طاس کے بعد پاکستان نے دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم اور سواں ڈیم بنانے کے منصوبے بنائے مگر ایک منصوبہ سیاست کی نذر ہو گیا اور دوسرے منصوبے پر کبھی تکنیکی مشکلات حائل آتی رہیں اور کبھی اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی مسئلہ بن گیا۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک طرح سے پاکستان کے زرعی شعبے کی موت ہے۔ پانی کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان وہ جنگ جو 60 کی دہائی میں ٹل گئی تھی، وہ اب ہو کر رہے گی۔
صدر ایوب لکھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کے بعد وہ پر امید ہو گئے تھے کہ مسئلہ کشمیر بھی اسی طرح حل ہو سکتا ہے۔
لیکن لگتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دراصل پانی کا مسئلہ ہے، جسے دونوں ملک اپنی اپنی لائف لائن سمجھتے ہیں، اس لیے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔