ڈراما سیریل ’جانگلوس‘ ایک ایسی تخلیق جس کی 1983 میں پروڈیوسر کاظم پاشا نے بصد فرمائش ڈراما رائٹر اور ناول نگار شوکت صدیقی سے ڈرامائی تشکیل کروائی تھی۔
اس وقت بھی شوکت صدیقی کا یہی کہنا ہے کہ ان کے اس ناول کے بیشتر واقعات اور کہانی اس قدر خطرناک اور حساس ہے کہ اسے پی ٹی وی حکام کسی بھی صورت منظور نہیں کریں گے اور کئی واقعات ایسے ہیں، جن پر اعتراض کیا جائے گا، لیکن کاظم پاشا کا اصرار تھا کہ پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر شوکت صدیقی ایک قسط لکھ کر دیں تاکہ وہ (اسلام آباد میں) ہیڈ کوارٹر بھیج کر اس کی باقاعدہ منظوری لیں۔
شوکت صدیقی ڈراما سیریل ’خدا کی بستی‘ لکھ کر دھوم مچا چکے تھے اور اب ان کے ایک اور ناول کو ڈرامائی تشکیل دینے کی فرمائش کی جا رہی تھی۔
بادل نخواستہ شوکت صدیقی نے کاغذ قلم سنبھال کر ایک قسط لکھی جس کے لیے کاظم پاشا نے سلیم ناصر اور طلعت حسین کا انتخاب کیا۔
شوکت صدیقی کو جب بتایا گیا تو انہوں نے مسرت کا اظہار کیا کیونکہ سلیم ناصر اور طلعت حسین دونوں ہی اداکاری میں اپنی غیر معمولی پہچان قائم کر چکے تھے۔
طلعت حسین نے اس پائلٹ قسط کے لیے لالی کا جبکہ رحیم داد کا کردار سلیم ناصر نے ادا کیا۔
جب قسط تیار ہو کر پی ٹی وی اسلام آباد ہیڈ کوارٹر بھیجی گئی تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ کاظم پاشا کو یہ بری خبر سنائی گئی کہ ان کا پائلٹ پروجیکٹ نامنظور کردیا گیا۔ وجہ وہی جو شوکت صدیقی بیان کر چکے تھے۔
جانگلوس کی کہانی کیا تھی ؟
شوکت صدیقی کا یہ ناول ماہنامہ ’سب رنگ‘ میں قسط وار شائع ہوا تھا، جو بعد میں کتابی صورت میں پیش کیا گیا۔ کہانی دو قیدیوں رحیم داد اور لالی کی تھی جو جیل سے فرار ہوتے ہیں۔ حالات و واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں کہ لالی اور رحیم داد بچھڑ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان دونوں کی الگ الگ کہانیاں شروع ہوتی ہیں۔
دونوں کی زندگیاں کئی نشیب و فراز سے گزرتی ہیں۔ شناخت چھپانے کی جدوجہد میں مختلف آزمائشوں کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ دونوں جہاں جہاں سے گزرتے ہیں وہاں کے دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات کہانی کو ۤآگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوئے۔
دراصل یہ لالی اور رحیم داد کے سفر پر مبنی داستان تھی جہاں وہ کسی کے لیے مدد گار ثابت ہوئے تو کبھی خود کے لیے مدد کرنا ان کے لیے آگ کے دریا کو پار کرنے کے مترادف بنا۔ ہر سفر میں ایک نیا پیغام ایک نیا سبق اور ایک نیا چونکا دینے والا انکشاف تھا۔ یہ صرف جرم اور سزا کی کہانی نہیں بلکہ سماجی نظام پر گہرا طنز بھی تھا اور تلخ حقیقت بھی کہ جہاں کمزور کے لیے الگ قانون اور طاقت ور کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔
شوکت صدیقی کے انکار اور پروڈیوسر کا اصرار
یہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت کا تذکرہ ہے جب ان کے میڈیا ایڈوائزر ارشاد راؤ نے اچانک کراچی ٹی وی مرکز کا دورہ کیا۔ پروڈیوسر کاظم پاشا اور قاسم جلالی مقامی ہوٹل کی ایک تقریب میں شریک تھے، تب انہیں اطلاع دی گئی کہ کراچی مرکز کے جنرل منیجر عبدالکریم بلوچ انہیں یاد کر رہے ہیں۔
دونوں بھاگم بھاگ پی ٹی وی پہنچے تو ارشاد راؤ نے کاظم پاشا سے کہا کہ وہ شوکت صدیقی سےان کے ناول ’جانگلوس‘ کی ڈرامائی تشکیل کیوں نہیں کراتے؟ جس پر کاظم پاشا نے بتایا کہ کم و بیش پانچ سال پہلے انہوں نے کوشش کی تھی لیکن ہیڈکوارٹر نے اس پروجیکٹ کو خطرناک موضوع کا ڈراما کہہ کر نامنظور کردیا تھا۔
اس پر ارشاد راؤ نے بے ساختہ کہا کہ اگر خطرناک تھرلر نہیں پیش کیے جائیں گے تو بھلا پی ٹی وی کیسے ترقی کرے گا؟ حکم ملا کہ شوکت صدیقی سے دوبارہ رابطہ کیا جائے اور ہر صورت میں یہ ڈراما اگلے ماہ سے نشر ہونا چاہیے۔ میڈیا ایڈوائزر تو یہ حکم دے کر چلتے بنے ادھر کاظم پاشا کی حالت بری تھی، کیونکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ شوکت صدیقی کو کیسے راضی کیا جائے۔ وہ تو اس بات پر سخت خفا تھے کہ پائلٹ کیوں مسترد کیا گیا۔
ایسے میں ایک ٹیم بنائی گئی جس میں اس وقت کے پی ٹی وی کے سکرپٹ ایڈیٹر افتخار عارف، اسسٹنٹ سکرپٹ ایڈیٹر مدبر رضوی، پروڈیوسر محسن علی اور خود کاظم پاشا شامل تھے۔ یہ قافلہ شوکت صدیقی کے گھر پہنچا۔ پروگرام کے تحت پہلے کاظم پاشا کو اندر روانہ کیا۔ طے یہ پایا تھا کہ اگر کاظم پاشا کو ناکامی ہو گی تو پھر باقی افراد شوکت صدیقی کو منانے کی کوشش کریں گے۔
کاظم پاشا نے آنے کا مدعا بیان کیا تو شوکت صدیقی آگ بگولہ ہو گئے، ان کا کہنا یہی تھا کہ وہ کسی صورت ڈرامائی تشکیل نہیں لکھیں گے۔ کاظم پاشا نے بیان کیا کہ اسلام آباد سے حکم ہے لیکن شوکت صدیقی ٹس سے مس نہ ہوئے اور یہاں تک کہ سخت غصے کی حالت میں ڈرائنگ روم سے اٹھ کر چلے گئے۔
اس تمام کارروائی کا علم شوکت صدیقی کی اہلیہ کو ہوا جو ان کی عدم موجودگی میں ڈرائنگ روم آئیں تو کاظم پاشا نے انہیں تمام تر صورت حال بتائی۔ انہوں نے دلاسہ اور تسلی دی کہ وہ شوکت صاحب کو منا لیں گی۔ چند ہی لمحے بعد واقعی ایسا ہی ہوا شوکت صدیقی کمرےمیں آئے اور کہا ٹھیک ہے لیکن اگلے مہینےسے تو قطعی نہیں، کم از کم دو ماہ میں ڈراما لکھ کر دوں گا۔
کاظم پاشا نے ایڈوائزر کا حکم یاد دلایا تو شوکت صدیقی نے اسی وقت ارشاد راؤ کو فون کر کے صاف صاف کہہ دیا کہ ان کی فرمائش دو ماہ میں پوری ہو گی۔ وہاں سے مثبت ہی جواب ملا جس کے بعد کاظم پاشا کے ساتھ آئے دیگر افراد بھی خوشی خوشی کمرے میں بلا لیے گئے۔
شوکت صدیقی کے آمادہ ہونے کے بعد انہوں نے ساہیوال کا رخ کیا، جہاں اس وقت کے ڈی سی مصطفیٰ زیدی نے ایک بنگلے میں ان کی رہائش کا انتظام کیا۔ ساتھ ہی ایک ملازم ان کی خدمت پر مامور کیا گیا۔ اسی بنگلے میں بیٹھ کر شوکت صدیقی نے ڈراما سیریل ’جانگلوس‘ لکھنے کا آغاز کیا۔
جاگیردارنہ نظام پر ڈرامے
یہ نہیں کہ ڈراما سیریل ’جانگلوس‘ جاگیردارنہ اور زمیندارنہ نظام کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنے والا پہلا ڈراما تھا۔ اس سے قبل ’وارث‘ اور پھر ’جنگل‘ اور ’دیواریں‘ بھی کچھ اسی نوعیت کے ڈراما سیریلز تھے جو جب نشر ہوتے تو سڑکوں پر سناٹے کا راج ہو جایا کرتا تھا۔
پنجاب کے پس منظر ماحول میں تخلیق کیے جانے والے ’جانگلوس‘ کی خاص بات یہ رہی یہ ڈراما دراصل ایک طویل اور پیچیدہ کہانی ہے، جس میں پاکستانی دیہی معاشرے، جیلوں، جاگیرداری نظام، بدعنوان افسر شاہی اور غیر منصفانہ نظام کی حقیقت کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا۔ اس کا مضبوط پلاٹ اور تجسس سے بھرے مناظر اسے شہرت دلا گئے۔
رحیم داد اور لالی کا انتخاب
جیل سے فرار ہونے والے دونوں قیدیوں کے لیے اداکاروں کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو پائلٹ پروجیکٹ میں کام کرنے والے سلیم ناصر اور طلعت حسین کی جگہ نئے اداکاروں کی تلاش شروع ہوئی۔ لالی کے لیے ایم وارثی کا چناؤ ہوا۔ ایم وارثی مختلف ڈراموں میں کام تو کرتے رہے تھے لیکن کوئی ایسا کردار ان کے نام کے ساتھ نہیں جڑا تھا جو ان کی شناخت بن جاتا۔ کیونکہ یہ وہ دور تھا جب اداکار، اپنے اصل نام کے بجائے کرداروں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رحیم داد کے لیے کاظم پاشا کو شبیر جان پسند آئے تھے، جنہوں نے قاسم جلالی کے لانگ پلے ’فلائٹ 033‘ سے شہرت حاصل کی تھی، لیکن کاظم پاشا کے لیے مسئلہ یہ درپیش تھا کہ شبیر جان اسی دوران ایک اور ڈراما سیریل میں مصروف تھے اور یہ بات عبدالکریم بلوچ کے علم میں لائی گئی تو انہوں نے اس ڈرامے سے شبیر جان کو نکال کر ’جانگلوس‘ میں شامل کرایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ڈرامے کی چار اقساط ریکارڈ ہو چکی تھیں۔ بعد میں یہ کردار کسی اور اداکار کو ادا کرنا پڑا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ شبیر جان کے کیرئیر کے لیے ’جانگلوس‘ ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
جہاں تک بات ایم وارثی کی ہے تو وہ آج تک ’لالی‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ لیکن اس قدر شہرت اور مقبولیت کے باوجود انہوں نے خود کو ڈراموں کے لیے انتہائی محدود کر لیا بلکہ دور سے دور ہوتے چلے گئے۔
بڑی سٹار کاسٹ والا ڈراما
پروڈیوسر کاظم پاشا کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا ڈراما تھا جس میں لگ بھگ 450 اداکاروں نے کام کیا۔ ان میں شبیر جان اور ایم وارثی کے علاوہ سلیم ناصر، طاہرہ واسطی، محمود اختر، محمود صدیقی، ذہین طاہرہ، ثمر طفیل، سلومی، ظہوراحمد، سبحانی بایونس، ذوالقرنین حیدراور انور کمال نمایاں ہیں۔
اسی ڈرامے کے ذریعے شگفتہ اعجاز نے بھی اداکاری کے میدان میں قدم رکھا۔ ڈرامے کی مختلف اقساط میں دیگر مہمان اداکار بھی وقفے وقفے سے جلوہ افروز ہوتے رہے۔
کی کلب کا تنازعہ
ڈراما سیریل کی 13 اور پھر 14 ویں قسط میں ’کی کلب‘ کو دکھانے پر ہنگامہ برپا ہو گیا۔
دراصل ناول میں تحریر تھا کہ اعلیٰ سرکاری اور اہم عہدیدار ہر ہفتے بڑی سی حویلی میں نجی پارٹی کا اہتمام کرتے۔ اس پارٹی میں ان افسران کی بیگمات یا پھر منظور نظر خواتین بھی شامل ہوتیں، جنہیں رات گئے مختلف کمروں میں منتقل کر دیا جاتا۔ نمبرز الاٹ شدہ ہر کمرے کی ایک چابی ہوتی اور پھر ایک ایمپائر ان افسران کو باری باری ان چابی کے ساتھ ان کمروں تک رسائی کراتا ہے۔ اب کس کمرے میں کون ہے اس کا ایمپائر کے علاوہ کسی کو علم نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی کس افسر کے حصے میں کون خاتون آجائے اس کا اسے آخری وقت تک معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ سارا عمل قرعہ اندازی کے تحت تکمیل پاتا ہے۔
یہ ’وائف سویپ‘ کا کھیل تھا۔ جسے شوکت صدیقی نے ناول میں انتہائی خوبصورتی سے تحریر کیا تھا اور جب ٹی وی سکرین پر اسے ڈھکے چھپے انداز میں پیش کیا گیا تو بھونچال آگیا۔ جنہوں نے ناول کا مطالعہ کیا ہوا تھا وہ جان گئے کہ ڈرامے میں کس واقعہ کو بیان کیا جا رہا۔ ٹی وی پر ان مناظر کو پیش کرنے کے لیے رنگ و سرور کی محفل بھی سجائی گئی۔ چھوٹی سکرین پر رقاصہ زاہدہ نورکا رقص دکھایا گیا۔ یہ اس زمانے میں بہت بڑا بولڈ قدم تصور کیا گیا تھا۔ ڈرامے کے اس سیکوئنز میں لالی ایمپائر بنتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ جب ماہنامہ ’سب رنگ‘ میں اسی ’کی پارٹی‘ کی قسط شائع ہوئی تھی تو جریدے کو حکومت کی جانب سے نوٹس مل گیا تھا۔ ’سب رنگ‘ کے مدیر شکیل عادل زادہ کے مطابق بھٹو صاحب کا دور تھا اور قسط شائع ہوئی تو سخت ردعمل آیا جس کے بعد تحریری معذرت کرنا پڑی۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا احتجاج
1989 میں بے نظیر بھٹو کے پہلے دورحکومت میں ان کے خلاف اپوزیشن کی کئی جماعتیں متحد تھیں اور ایسے میں جب ڈراما سیریل ’جانگلوس‘ میں ’کی پارٹی‘ اور جاگیرداروں اور زمینداروں کے مظالم اور چال بازیوں کو موضوع بنایا گیا تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے بے نظیر حکومت پر کڑی تنقید کی اور یہاں تک الزام لگایا کہ سندھ سے بیٹھ کر پنجاب کا ریکارڈ لگایا جا رہا ہے۔
سیاسی دباؤ اور تنقید میں اضافہ ہونے لگا۔ بات اس قدر بڑھی کہ وفاقی وزارت اطلاعات نے پی ٹی وی کے اس وقت کے ایم ڈی اسلم اظہر سے کہا کہ ڈرامے کو بند کرایا جائے۔ کاظم پاشا کا کہنا ہے کہ انہیں اسلم اظہر کا فون آیا کہ ڈرامے کو روکا جائے۔ کاظم پاشا نے بتایا کہ اب تک وہ 20 اقساط ریکارڈ کر چکے ہیں۔ حکم یہ ملا کہ کسی بھی طرح رول بیک کیا جائے۔
شوکت صدیقی کو یہ خبر پہنچائی گئی تو ان کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو پہلے ہی کہہ رہے تھے ان کا یہ ناول چھوٹی سکرین پر دکھایا ہی نہیں جا سکتا، اور یوں پھر ڈراما سیریل کو اچانک ہی بند کر دیا گیا۔ ڈرامے کی ۤآخری قسط جو کہ 21ویں تھی اس کے اختتام میں یہ دکھایا گیا کہ رحیم داد فائلوں کا انبار لے کر جا رہا ہے جبکہ پس منظر میں سورج غروب ہو رہا ہے۔ سٹار کاسٹ کے بعد سکرین پر لکھا ۤآیا ’اختتام جانگلوس ناول، حصہ اول۔‘
شوکت صدیقی کے لکھے ہوئے اس ناول کے تین حصے ہیں اور بدقسمتی سے ٹی وی پر صرف ایک ہی حصہ نشر ہوا۔ کم و بیش 36 سال کا عرصہ بیت گیا آج تک کسی نے پھر جرات نہیں کہ ’جانگوس‘ کے باقی حصوں کو ڈرامائی تشکیل دی جائے۔ ایک نجی ٹی وی چینل نے یہ جسارت کی تو کہا جاتا ہے کہ خود شوکت صدیقی نے اس کی اجازت نہ دی۔
درحقیقت ’جانگلوس‘ ایک کلاسک ڈراما سیریل تسلیم کیا گیا جس میں حقیقت سے قریب مکالمے، طاقتور اداکاری، معاشرتی اور سیاسی مسائل کی عکاسی اور دلچسپ اور سنسنی خیز پلاٹ ایسا تھا جس نے ناظرین کو اس ڈرامے سے جوڑے رکھا۔ ڈرامے کے مرکزی اداکار ایم وارثی اور شبیر جان حیات ہیں، دیکھتے ہیں کہ کون ’جانگلوس‘ پر پھر سے طبع آزمائی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔