پاکستان اپنے قدرتی حسن، خاص طور پر سرسبز پہاڑوں اور ان سے گزرنے والے دریاؤں کی وجہ سے سیاحوں اور مقامی افراد کے لیے ایک پرکشش مقام ہے۔ گرمیوں میں، خاندان اور دوست احباب دریاؤں کے کنارے پکنک منانے اور ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر سکون حاصل کرنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ یہ مناظر بظاہر پرسکون اور دلکش لگتے ہیں، لیکن ان کے پیچھے مہلک خطرات چھپے ہوتے ہیں جنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
پانی کا بہاؤ، اس کی گہرائی، اور موسمی حالات میں اچانک تبدیلی کسی بھی خوشگوار لمحے کو المناک حادثے میں بدل سکتی ہے۔
سوات میں ایک پکنک کے دوران اچانک سیلابی ریلے میں 13 جانوں کا ضیاع، جس میں ایک پورا خاندان شامل تھا، اس حقیقت کی ایک المناک مثال ہے۔ لیکن اسی طرح کی دیگر اموات بڑھتے ہوئے رجحان کی نشان دہی کرتی ہے۔
یہ واقعات صرف انفرادی حادثات نہیں، بلکہ پاکستان کے موسمیاتی مستقبل کی ایک جھلک ہیں۔ پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، اور یہاں مون سون کی بارشیں زیادہ شدید اور غیر متوقع ہوتی جا رہی ہیں۔
اچانک سیلاب اور گلیشیل جھیل پھٹنے کے واقعات اب موسمی خطرات بن چکے ہیں، خاص طور پر سوات جیسے حساس علاقوں میں ۔
یہ صورت حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دریاؤں کے کنارے تفریح کا خطرہ محض انسانی لاپرواہی کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک وسیع تر ماحولیاتی چیلنج کا حصہ ہے، جس کے لیے نہ صرف انفرادی بلکہ ریاستی سطح پر بھی طویل مدتی موافقت کی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔
اس لیے، ہم یہ بھی واضح کریں گے کہ صرف حکومت پر ذمہ داری ڈالنا کافی نہیں، بلکہ ہر فرد کو اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کے لیے ذاتی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی۔
دریاؤں کا پانی بظاہر پرسکون نظر آ سکتا ہے، لیکن اس کی سطح کے نیچے بے شمار پوشیدہ خطرات موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت جان لیوا ثابت ہو تے ہیں۔
ان خطرات کو سمجھے بغیر پانی میں داخل ہونا یا اس کے کنارے لاپرواہی سے بیٹھنا انتہائی خطرناک ہے۔
عوام میں دریاؤں کے خطرات کے بارے میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ لوگ انہیں سوئمنگ پول یا جھیلوں کی طرح محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہ ایک 'خاموش قاتل' کی طرح ہے جہاں خطرات بظاہر دکھائی نہیں دیتے لیکن موجود ہوتے ہیں۔
عوامی بیداری کی مہمات کو صرف ’خطرات‘ بتانے کے بجائے ان ’غلط فہمیوں‘ کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے، خاص طور پر ان خطرات کو جو بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔ ’پانی کا فریب دہ سکون‘ کا تصور اس غلط فہمی کو اجاگر کرتا ہے۔
دریاؤں میں پانی کا بہاؤ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بارش یا گلیشیر پگھلنے سے اچانک پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے اور بہاؤ تیز ہو سکتا ہے، جسے ’فلیش فلڈ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ریلے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ چند لمحوں میں انسانوں اور گاڑیوں کو بہا لے جاتے ہیں۔ صرف 6 انچ بہتا پانی کسی بھی شخص کو گرا سکتا ہے، اور ایک فٹ پانی گاڑی کو بہا سکتا ہے ۔
پانی کا بہاؤ موسم کے ساتھ بدل سکتا ہے، اور پانی کی سطح تیزی سے بڑھ یا گھٹ سکتی ہے۔ دریائے سوات میں اچانک سیلابی ریلے کی وجہ سے متعدد افراد کا بہہ جانا اس کی واضح مثال ہے ۔
دریاؤں کے کنارے اکثر پھسلنے والے ہوتے ہیں، جو گرنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔
پھسلنے والی چٹانیں یا کھڑی ڈھلوان ہنگامی صورت حال میں باہر نکلنا مشکل بنا سکتی ہیں۔ پانی کے اندر، گہرائی اچانک بڑھتی ہے (sudden drop-off) اور زیر آب چٹانیں، درختوں کی شاخیں یا دیگر ملبہ چھپا ہوتا ہے جو شدید چوٹوں یا پھنسنے کا باعث بن سکتا ہے۔ پانی کی شفافیت زیر آب اشیاء جیسے رکاوٹیں، چٹانیں اور درختوں کو چھپا سکتی ہے ۔
دریاؤں کا پانی، خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں، اکثر بہت ٹھنڈا ہوتا ہے، چاہے باہر موسم گرم ہی کیوں نہ ہو۔ اچانک ٹھنڈے پانی میں داخل ہونے سے جسم کو ’کولڈ واٹر شاک‘ لگ سکتا ہے، جس سے سانس لینے میں دشواری، پٹھوں میں کھنچاؤ اور دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ریسکیو 1122 کے ایک مطالعے کے مطابق، حادثاتی ڈوبنے کی ایک اہم وجہ ’تفریح‘ تھی۔ بڑھتی ہوئی گرمی اور بجلی کی بندش لوگوں کو ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے دریاؤں کی طرف دھکیلتی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی اور تفریحی سرگرمیوں کی طلب، مناسب حفاظتی اقدامات کے فقدان میں، ڈوبنے کے واقعات کو بڑھا رہی ہے۔ یہ ایک اہم وجہ اور اثر کا تعلق ہے جو پالیسی سازوں اور عوام دونوں کے لیے اہم ہے۔
پاکستان میں دریاؤں اور آبی گزرگاہوں پر لاپرواہی کے باعث ہونے والے الم ناک حادثات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ واقعات نہ صرف انفرادی خاندانوں کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو گہرے صدمے سے دوچار کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جون 2025 میں سوات میں ایک ہی خاندان کے متعدد افراد اچانک سیلابی ریلے کی زد میں آ کر ڈوب گئے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق، 14 جانوں کا ضیاع ہوا جس میں ایک پورا خاندان شامل تھا۔
گذشتہ سال جون میں 16 افراد کے ایک خاندان میں سے 9 افراد دریائے سوات میں پکنک کے دوران ہلاک ہوئے جب بچے پانی میں تصاویر لے رہے تھے اور رشتہ دار انہیں بچانے کے لیے کود پڑے، لیکن وہ بھی سیلابی ریلے میں پھنس گئے جو مون سون کی بارشوں سے مزید شدید ہو گیا تھا۔
ایک اور رپورٹ میں 18 افراد کے ڈوبنے کا ذکر ہے، جن میں سے 12 لاشیں برآمد ہوئیں، یہ بھی ایک سیاحتی گروپ کا حصہ تھے ۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق، دریائے سوات میں مختلف مقامات پر 75 افراد پھنسے، جن میں سے 58 کو بچا لیا گیا، آٹھ لاشیں برآمد ہوئیں اور 10 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ مجموعی طور پر 14 افراد کی موت کی تصدیق ہوئی اور 10 لاپتہ ہیں۔ ان واقعات نے ریاست کی تیاری اور شہری احتیاط کی کمی کو نمایاں کیا۔
اگست 2016 میں خیبر پختونخوا کے کنہار دریا میں ایک 11 سالہ بچی صفیہ عاطف سیلفی لینے کی کوشش میں پھسل کر ڈوب گئی۔ اس کی والدہ شازیہ عاطف اسے بچانے کے لیے کودیں اور بہہ گئیں، اور پھر والد عاطف حسین بھی انہیں بچانے کی کوشش میں ڈوب گئے ۔ یہ واقعہ سیلفی کے بڑھتے ہوئے جنون اور اس کے جان لیوا نتائج کی ایک واضح مثال ہے۔ حکومتی انتباہی بورڈز کے باوجود لوگ خطرناک مقامات پر سیلفی لینے سے باز نہیں آتے ۔
لوگوں کی سوشل میڈیا پر ’لائکس‘ اور تبصروں کی ہوس خطرناک سیلفی لینے کا سبب بنتی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل کرنے کی ہوس لوگوں کو اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ ایک سماجی رجحان ہے جو جدید دور میں بڑھ رہا ہے۔ عوامی بیداری کی مہمات کو سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال اور ’کل فیز‘ (جان لیوا سیلفی) کے خطرات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
اعداد و شمار کسی بھی مسئلے کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ڈوبنے اور سیلفی سے ہونے والی اموات کے اعداد و شمار اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ یہ محض اتفاقی حادثات نہیں بلکہ ایک بڑھتا ہوا عوامی صحت کا مسئلہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ڈوبنا دنیا بھر میں غیر ارادی اموات کی تیسری بڑی وجہ ہے۔ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں 90% غیر ارادی ڈوبنے کی اموات ہوتی ہیں، اور پاکستان جیسے ممالک میں سالانہ تقریباً 82,000 اموات ہوتی ہیں۔
ریسکیو 1122 کے جنوری 2019 سے دسمبر 2023 تک کے پانچ سالہ مطالعے کے مطابق، 412 ڈوبنے کے کیسز میں سے 309 (75%) حادثاتی تھے۔ ان میں 68.68% مرد شامل تھے۔ سب سے زیادہ متاثرہ عمر گروپ 11 سے 20 سال (31.31%) تھا ۔ زیادہ تر واقعات مون سون (28.88%) اور گرمیوں (26.45%) کے موسموں میں پیش آئے۔ حادثاتی ڈوبنے کی سب سے نمایاں وجہ ’تفریح‘ تھی (31.71%)۔
سیلفی سے متعلقہ اموات ایک بڑھتا ہوا عالمی رجحان ہے۔ مارچ 2014 سے مئی 2025 تک دنیا بھر میں 432 سیلفی سے متعلقہ اموات اور 86 سنگین زخمی ہونے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2008 سے 2021 کے درمیان 379 سے زائد افراد سیلفی لینے کی کوشش میں ہلاک ہوئے ہیں۔
اکتوبر 2011 سے نومبر 2017 کے درمیان 259 سیلفی اموات ہوئیں ۔ 2015 میں سیلفی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد دنیا بھر میں شارک کے حملوں سے ہونے والی اموات سے زیادہ تھی ۔
پاکستان کا سیلفی اموات میں عالمی سطح پر ایک نمایاں مقام ہے۔ کارنیگی میلن یونیورسٹی کے ایک مطالعے کے مطابق، مارچ 2014 سے اب تک 127 سیلفی سے متعلقہ اموات کی تصدیق ہوئی ہے، جس میں پاکستان نو اموات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، جبکہ بھارت 76 اموات کے ساتھ سرفہرست ہے۔
اگرچہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے، لیکن دریاؤں کے کنارے حادثات کی روک تھام میں انفرادی احتیاط کا کردار کلیدی ہے۔
صرف حکومتی اقدامات کا انتظار کرنے کے بجائے، ہر فرد کو اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست ہی ہر چیز کی ذمہ دار ہے، تو وہ اپنی احتیاط کم کر دیتے ہیں۔ عوامی بیداری کی مہمات کو اس ’اخلاقی خطرے‘ کو دور کرنا چاہیے اور شہریوں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ ان کی ذاتی حفاظت میں ان کا اپنا کردار سب سے اہم ہے۔
حکومت کو خطرے والے علاقوں کی نشان دہی کرنی چاہیے، انتباہی نظام کو بہتر بنانا چاہیے، اور ریسکیو کی صلاحیت کو بڑھانا چاہیے تاہم، جب دریا بلند ہوتا ہے، تو ریاست کو پہلے بلند ہونا چاہیے کا مطلب یہ نہیں کہ شہری اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جائیں۔
صرف پالیسیاں بنانے سے کچھ نہیں ہوگا، بلکہ ان کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے اور مقامی آبادی کی زبان اور ثقافت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ شہریوں کو بھی یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ وہ کس طرح مؤثر انتباہات کو پہچان سکتے ہیں اور ان پر عمل کر سکتے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زندگی انمول ہے اور ایک لمحاتی خوشی یا ایک ’لائک‘ کے لیے اسے خطرے میں ڈالنا عقل مندی نہیں۔
سوات میں جانوں کا ضیاع محض ’قدرتی آفت‘ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ یہ ایک اہم نقطہ نظر ہے جو یہ بتاتا ہے کہ بہت سے حادثات کی اصل وجوہات یعنی لاپرواہی، ناکافی تیاری سے صرف نظر کر لیا جاتا ہے۔ یہ عوامی سوچ کو بدلنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، جہاں حادثات کو صرف ’قدرتی آفت‘ سمجھنے کے بجائے انسانی عوامل اور احتیاطی تدابیر کی کمی کو بھی تسلیم کیا جائے۔
حکومتی اقدامات اپنی جگہ، لیکن ہماری اپنی احتیاط ہی ہماری سب سے بڑی محافظ ہے۔ ہر فرد کو اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
دریاؤں کے قریب جاتے وقت ہمیشہ ہوشیار رہیں، پانی کے بہاؤ کو کم نہ سمجھیں، اور تمام حفاظتی ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی ان خطرات اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کریں۔ ’احتیاط خوف سے بہتر ہے۔‘
آئیے، ہم سب مل کر ایک محفوظ اور ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں تاکہ ہمارے دریا تفریح کا ذریعہ بنیں، نہ کہ موت کا۔