گلگت بلتستان: شہر کو سیلاب لے گیا

جنگلات اگانا نہایت اہم ہے مگر بدقسمتی سے ہم گلگت بلتستان میں معمولی رقبے پر جو قدرتی جنگلات ہیں ان کو تہہ و تیغ کرنے میں مصروف ہیں۔

22 جولائی، 2025 کو حکومت گلگت بلتستان کی جاری کردہ تصویر میں فوجی اہلکار بابوسر، گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈ سے متاثرہ مقام سے سیاحوں کو نکالنے میں مدد کر رہے ہیں (اے ایف پی)

اگست کا مہینہ گلگت بلتستان پر بھاری رہا کیونکہ کلاؤڈ برسٹ اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیلابوں نے تباہی مچا دی۔ ندی نالے بپھر گئے اور دیکھتے دیکھتے گھروں، کھیت کھلیان اور انفراسٹرکچر کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔

ہنزہ، نگر، غذر، چلاس اور خاص طور پر بلتستان میں اس تباہی کے اثرات بہت زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہنزہ میں شیشپر گلیشیر سرک گیا، نتیجہ حسن آباد گاؤں کی فصلیں، باغات اور سبزہ غتربود ہوگیا۔ غذر گوپس میں تازہ ترین گلیشیائی سیلاب سے ایک گاؤں تلی داس رواشن مکمل تباہ ہو گیا اور دریائے یاسین کا بہاؤ رک گیا ہے۔

بلتستان کے گانچھے ضلع میں بہت دور کندوس کا خوبصورت پہاڑی گاؤں جہاں روایتی طرز کے گھر بنے ہوئے تھے اور زینہ دار کھیت جو کی سنہری فصل سے لدے ہوئے تھے یکدم کھنڈر بن گئے۔ بلندی پر واقع ایک گلیشیائی جھیل ایسی مچل گئی کہ لمحہ بھر میں سبزہ و گُل کو خس و خاشاک میں بدل دیا۔ ہلدی گاؤں بوا جوہر کی جائے مدفن ہے وہاں کے مکین اپنی کسمپرسی کا حال صرف اپنے آنسوؤں سے سناتے ہیں، گھر دب گے ہیں ، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ کھرمنگ کا بلندی پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں کتی شو طوفانی موجوں کا شکار ہوا ہے خواتین جان سے گئیں۔ 

ادھر سکردو شہر کے مضافاتی علاقے ڑگیول برگے نالے سے آنے والے مسلسل سیلابی ملبے  کی وجہ سے آبادی اجڑ رہی ہے۔ علاؤہ ازیں تقریباً ہر گاؤں میں سیلابی ملبہ پہنچا ہے فصلیں اور پودے خراب ہوئے ہیں۔ بجلی گھروں کو نقصان پہنچا ہے اور بجلی معطل رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اس سے بھی بڑھ کر گلگت سکردو روڈ کے دو بڑے آر سی سی پل جو کہ استک اور باغیچہ والے نالوں پر بنے ہوئے تھے سیلابی پانی کی نذر ہو گئے یوں بلتستان ڈویژن مکمل طور پر کٹ کر رہ گیا تھا۔

گانچھے سرموں میں لوہے والا بڑا پل جو دریائے شیوق پر بنا ہوا تھا بہہ گیا، مشہور سیاحتی گاؤں ہوشے کا راستہ اور لکڑی کا پل خراب ہو نی کی وجہ سے آمدروفت بند ہے۔ نلتر روڈ بہہ گیا ہے، شگر میں پکورہ اور برالدو کے پل تباہ ہوئے ہیں۔ یہ کچھ چنیدہ مثالیں ہیں جب کہ جگہ جگہ نقصانات ہوئے ہیں اور اخبارات کی خبروں کے مطابق تاحال 45 افراد کی ہلاکتیں سامنے آئی ہیں۔

یہ سب کچھ کیوں ہوا، اس غارت گری کی کیا وجہ ہے اس پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس خطرے کے آثار کئی سال پہلے سے نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے جب قراقرم ، مغربی ہمالیہ اور ہندوکش سلسلوں میں گھرے اس خطے کا ماحولیاتی توازن بگڑنے لگا جسے ماہرین کلائمیٹ چینج کا نام دیتے ہیں۔

لوگ صدیوں سے ایک مخصوص روایتی طور طریقوں سے کھیتی باڑی کرتے چلے آرہے تھے، موسموں کا پتہ تھا کہ کب برف پڑنی ہے اور کب بہار کا آغاز ہونا ہے۔ کب بوائی کرنی ہے، آب پاشی کے لیے کب برف کا پانی پگھل کر پہنچنا ہے۔ گھاس اور فصلیں کب اٹھانی ہیں اور پہاڑی چراگاہوں کی طرف کب مال مویشی روانہ کرنے ہیں۔ غرض ایک طرح کا طے شدہ سیزنل کیلنڈر ہوتا تھا جس کے تحت تمام سماجی، معاشرتی اور زرعی سرگرمیاں انجام پذیر ہوتی تھیں۔ مقامی تہوار اور فوک لور بھی اسی کیلنڈر سے جڑے ہوئے تھے۔

لیکن گذشتہ دس پندرہ سالوں سے آسمان نے اپنا رنگ بدلا اور سب پھر کچھ بدل گیا ۔روٹین کی سردیاں جو نومبر دسمبر سے شروع ہوتی تھیں اور برف پڑتی تھی اس میں خلل آیا اور برف باری سکڑ کر بلکہ تاخیر سے فروری مارچ میں جا کر پڑنے لگی ہے اور مقدار میں بھی بڑا فرق آیا ہے۔ گلگت بلتستان کے شہر اور دیہات اپنی خوبصورتی اور ٹھنڈک کے لیے مشہور تھے وہاں کا موسم ایسے بدلا کہ گرمی اور حبس بڑھنے پر مقامی لوگ حیران ہیں۔ کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے سیاح بھی یہاں آکر پسینہ پونچھتے اور متجسس تھے کہ یہاں اتنی گرمی کیوں ہے۔

ماہرین ماحولیات اس تبدیلی کو ایک خاص زاویے سے دیکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں فوسلز فیول کا استعمال، پیداواری صنعتوں سے کاربن کا اخراج ، جنگلات کا کٹاؤ اور خوراک کی پیداوار کے لئے فوسلز انرجی کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔
یہ چند چنیدہ مثالیں ہیں جن کی وجہ سے  جو کاربن گیس خارج ہوتی ہے وہ فضا میں ایک موٹی تہہ جما دیتی ہے اس تہہ سے گزرنے والی سورج کی شعاعوں کی حرارت زمین میں مقید ہو کر رہ جاتی ہے یوں  زمینی حرارت میں اضافے کا باعث بن جاتی ہے۔

یہ سب مختلف وجوہات ہیں جو موسم میں توازن میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہیں اور پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ اس ضمن میں دسمبر کے مہینے میں عالمی سطح پر میٹنگ COP28 منعقد ہوئی جس میں اس مشکل کے تدارک کے لیے کی گئی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور نئے اہداف بھی مقرر ہوئے۔

گلگت بلتستان کا علاقہ قراقرم ، مغربی ہمالیہ اور ہندوکش پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جو بام دنیا کہلاتا ہے اور زیادہ تر حصہ برف اور گلیشیئرز ہر مشتمل ہے۔ موسمیاتی تغیر و تبدل کے اثرات اب اس خطے میں واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ گلیشیئرز کا سکڑنا، برفانی جھیلوں کا ٹوٹ جانا (Glacial lakes out brust)، ندی نالوں میں تغیانی، زمین کا کٹاؤ ، برف کا کم پڑنا اور خشک سالی اس کی بڑی مثالیں ہیں۔

چونکہ گرین ہاؤس ایفکٹ میں نہ ہمارا کوئی ہاتھ ہے اور نہ ہی کاربن اخراج میں ہم ملوث ہیں لیکن اس کے باوجود اس تبدیلی کے نتائج میں ہم زیادہ خسارہ اٹھا رہے ہیں۔ بجلی کی پیداوار ہمارے ہاں بلکل قلیل ہے اور یہ  فوسل فیول سے نہیں بلکہ تھرمل بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ صنعت و حرفت بھی نہ ہونے کے برابر ہے لہذا اس حوالے سے بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ جہاں تک جنگلات کی کٹائی کا شاخسانہ ہے وہ بھی قابل تشویش ہے لیکن خطرناک حد تک شاید نہیں ہے۔ ہاں لمحہ فکر یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں  قدرتی جنگل کا رقبہ 4 فی صد سے بھی کم ہے جس کی وجہ سے پھل دار درختوں کے کاٹ کر جلانے کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔

شہروں میں کاربن اخراج کی وجہ گاڑیاں اور دیگر ٹرانسپورٹ ذرائع ہیں جن میں فوسل فیول استعمال ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کا اکثریتی علاقہ دیہات اور قصبوں پر مشتمل ہے جہاں گاڑیاں بہت کم ہیں۔ البتہ سکردو ، گلگت سمیت ایک آدھ شہر اور کچھ قصبوں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی وجہ سے چند سالوں سے کچھ ریل پیل بڑھ گئی ہے۔
تاہم گلگت بلتستان کی fragile ecology کو بچانے کے لیے ان گاڑیوں کی تعداد پر نظر رکھنا اور متوقع خطرہ پر بروقت کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔

موسم کی اس بے اعتدالی اور اس کے حوالے سے مقامی سطح پر کیا اقدامات اٹھائے جائیں کہ نقصان کم سے کم ہو۔ اس حوالے سے میں نے ماحولیات، زراعت اور جنگل بانی کے چند ماہرین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم کلائمیٹ چینج کے اثرات سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتے ہیں تاہم adaptation کے ذریعے اس کی سنگینی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں اب اپنے بودوباش میں تبدیلی ،گھروں کے طرز تعمیر، گاؤں کے پھیلاؤ، زمین کے استعمال کی پلاننگ اور شجر کاری کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی۔

حالیہ سیلاب سے ان انفراسٹرکچر کا زیادہ تر نقصان ہوا ہے جو قدرتی آبی گزر گاہوں کے راستے میں تعمیر کیے گئے تھے۔ لہٰذا ایک بڑا سنجیدہ قدم یہ ہوگا کہ اس طرح کی تعمیرات روک دی جائیں اور ندی نالوں کے فطری بہاؤ کے راستے واگزار رہیں۔

ہمارے اکثریتی گاؤں پہاڑوں کے دامن میں ہیں اور یہاں آب پاشی کا بنیادی ذریعہ پہاڑوں کی بلندیوں سے آنے والے برفانی اور گلیشیائی ندی نالے ہیں جس کی وجہ سے ماہرین نے انہیں  Hydraulic Societies کا نام دیا ہے۔ اب کلائمیٹ چینج کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے گاؤں کے مزید پھیلاؤ اور نئی زمینوں کے استعمال کے لئے مقامی دانش بروئے کار لاتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی سے بچنے کے کسی ضابطے کے اندر رکھنا ہوگا تاکہ فطری ماحول میں  بڑاخلل نہ پڑے۔ آباد کاری کے طور طریق بدلنے ہوں گے اور اس کے لیے بروقت پلاننگ ازحد ضروری ہے۔

جنگلات اگانا نہایت اہم ہے مگر بدقسمتی سے ہم گلگت بلتستان میں معمولی رقبے پر جو قدرتی جنگلات ہیں ان کو تہہ و تیغ کرنے میں مصروف ہیں جن میں بڑوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ 20  سال سے بنیادی عوامی ادارے جن میں یونین کونسل، بلدیہ اور ضلع کونسل شامل ہیں انہیں غائب کر دیا گیا ہے اور عوام محلہ، گاؤں ، یونین اور ضلع سطح کی کسی بھی طرح کی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں براہ راست شریک نہیں ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ