امور خارجہ کی ’نجی فرنچائزز‘ کی ضرورت؟

کسی بھی دوسری ریاست کے ساتھ بات چیت پاکستان کی ریاست کرے گی۔ جسے قبول ہے کر لے جسے قبول نہیں نہ کرے۔ امور خارجہ میں نجکاری کی کوئی گنجائش نہیں۔

18 جنوری، 2024 کی اس تصویر میں ایک سکیورٹی اہلکار اسلام آباد میں واقع دفتر خارجہ کے باہر پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

کیا کوئی قومی ریاست اس بات کی متحمل ہو سکتی ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کی نجی فرنچائزز کھلی ہوئی ہوں اور مذہبی شخصیات سے لے کر سیاسی رہنماؤں تک، سب وفاق کو اپنی خدمات پیش کر رہے ہوں کہ وہ فلاں ملک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں ریاست کی مدد فرما سکتے ہیں؟

جب جب افغانستان کے ساتھ معاملات پیچیدہ ہوتے ہیں، کچھ شخصیات میدان میں آ دھمکتی ہیں کہ خارجہ پالیسی کی نج کاری کروا لو۔  

ان مہربانوں نے ریاست پاکستان کو کیا اتنا ہی ’واؤ معدولہ‘ سمجھ رکھا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کے لیے ’نجی شعبے‘ کی خدمات لینے پر مجبور ہو گی؟

اگر ساری دنیا کے ساتھ پاکستان کی وزارت خارجہ اور اس کے ماہرین معاملہ کر سکتے ہیں تو افغانستان کے ساتھ بھی کر لیں گے۔ دنیا بھر میں امور خارجہ کو متعلقہ شعبے کے ماہرین ہی دیکھتے ہیں جو ریاست کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ تماشا صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ جیسے ہی افغانستان کے ساتھ تعلقات میں اونچ نیچ آتی ہے، کچھ مذہبی اور سیاسی شخصیات، خیر خواہی کی آڑ میں ریاست کو کہنی مار کر کہتی ہیں تم ذرا راستے سے ایک طرف ہو جاؤ، تم اس قابل نہیں، یہ معاملہ ہم تم سے بہتر طور پر نمٹا سکتے ہیں۔
 
مولانا فضل الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان اورر افغانستان کے درمیان حالیہ تنازع کے خاتمے کے لیے کردارادا کرنے کو تیار ہیں۔ مولانا ہماری سیاست کا معتبر نام ہیں اور مذہبی سیاست کا بھرم ہیں۔
 
ٹھوس، معقول اور منطقی بات کرتے ہیں، سوال لیکن یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک سے تعلقات بہتر کرنے میں وہ کس حیثیت میں کردار ادا کریں گے؟ 
 
کیا افغانستان میں بھی کوئی ایسے عالم دین ہیں جو کابل میں پاکستانی سفارت خانے تشریف لے گئے ہوں اور فرمایا ہو کہ طالبان حکومت چاہے تو وہ پاکستان کے ساتھ تنازعات ختم کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں؟
 
یا کسی نے وہاں حکومت کو سمجھایا ہو کہ ہاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے کتنے ضروری ہیں۔ 
 
مولانا کا میں دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں لیکن اس سوال سے صرف نظر نہیں کر سکتا کہ دیگر ممالک کے یہ سارے خیر خواہ پاکستان میں ہی کیوں پائے جاتے ہیں؟ کیا کسی دوسرے ملک میں ایسا ہی کوئی خیر خواہ پاکستان کا بھی ہے؟
 
مولانا فضل الرحمن ہوں، مفتی عبد الرحیم صاحب ہوں یا کوئی اور قابل احترام مذہبی رہنما ہوں، انہیں یہ واہمہ کس نے ڈالا کہ وہ کسی ملک کے ساتھ تعلقات کی گتھیاں، ریاست سے بہتر انداز میں سلجھا سکتے ہیں۔
 
ریاست سے بھی یہی سوال ہے کہ اگر کبھی یہ حکمت عملی رہی ہے تو کیوں رہی ہے؟ پاکستان نے افغانستان کے مہاجرین کو لاکھوں کی تعداد میں پناہ دی۔ ایران کی طرح انہیں کیمپوں میں نہیں رکھا، عزت دی، وہ معاشرے کا حصہ بنے۔  

مارکیٹوں میں ان کا اثرو رسوخ غیر معمولی ہے، مذہبی شخصیات نے کیا ریاست پاکستان سے زیادہ ان کی خیر خواہی کی ہے کہ وہ پاکستان کی بات نہین سنیں گے البتہ ان چند شخصیات کی بات آسانی سے مان لیں گے؟

ممالک کے درمیان تعلقات سفارتی سطح پر ہی طے ہوتے ہیں، اگر کوئی ملک اتنا نازک مزاج ہے کہ اس کے لیے خصوصی طور پر سفارتی فرنچائزز بنا کر نجی شعبے سے مدد لینا پڑے تو اس سے ڈیڈ لاک ہی بہتر ہے۔ کیونکہ اس خیر خواہی سے ملک میں فالٹ لائنز پیدا ہوتی ہیں۔

اس طرز عمل سے ہر سطح پر اجتناب کی ضرورت ہے۔ کسی بھی دوسری ریاست کے ساتھ بات چیت پاکستان کی ریاست ہی کرے گی۔ جسے قبول ہے کر لے جسے قبول نہیں نہ کرے۔ امور خارجہ میں نج کاری کی کوئی گنجائش نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماضی میں اسی نیک نیت نج کاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں فالٹ لائنز پیدا ہو چکی ہیں۔ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کا سہارا لیا جاتا ہے، ریاست سوتیلے پن کا شکار ہے۔ 

عمران خان نے بھی ایسی ہی پیش کش فرمائی ہے۔ ان کا معاملہ البتہ بالکل الگ ہے، انہیں امور خارجہ میں تو بالکل ہی سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا۔  

وہ صرف حکومت کو سینگوں پر لے کر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ کام حکومت کے بس کی بات ہی نہیں، ہاں اگر حکومت خان صاحب کو پیرول پر رہا کر دے تو وہ قذافی سٹیڈیم اینڈ سے بھاگتے ہوئے آئیں گے، ایمپائر کو کراس کریں گے اور سارے مسائل حل کر دیں گے ۔ 

ان کے دور اقتدار میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ دوست ممالک کے ساتھ عشروں کے تعلقات داؤ پر لگ گئے تھے۔ کشمیر پر او آئی سی کا ایک اجلاس تک نہ بلایا جا سکا تھا۔

رجز البتہ بہت تھے کہ ہم او آئی سی کا متبادل بنا لیں گے۔ اور جب وقت آیا تو ملائیشیا اور ترکی ان کے یو ٹرن کو دیکھ کر نہر والے پل پر حیران پریشان کھڑے پائے گئے ۔ 

موصوف ایران گئے تو عاصم منیر (تب ڈی جی آئی ایس آئی) کی موجودگی میں پاکستان پر ہی فرد جرم عائد کر آئے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا اب میں آ گیا ہوں اب ہماری طرف سے مزید کچھ نہیں ہو گا۔

اس بابرکت دور میں ہر چیز ہی بازیطہ اطفال بنی لیکن امور خارجہ کی حالت تو تکلیف دہ حد تک تشویش ناک تھی۔

سادہ سی بات ہے: ریاست کے ساتھ ریاست ہی کو معاملہ کرنا چاہیے۔ جدید ریاستی ڈھانچے میں قدیم وقتوں کے نجی جرگوں اور امور خارجہ کی نجی فرنچائزز کی کوئی ضرورت نہیں۔

حکومت اور ’نجی شعبے‘ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے،  انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ