جب 1960 میں پاکستانی طیاروں نے افغانستان پر بمباری کی

افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے نومولد پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کی تھی جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان اس سے قبل بھی سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔

پاکستان کے صدر ایوب خان اور افغانستان کے حکمران شاہ ظاہر 1960 میں (پبلک ڈومین)

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر گرما گرمی دیکھنے کو آئی ہو بلکہ ایسے واقعات ماضی میں ایک سے زیادہ مرتبہ رونما ہو چکے ہیں۔

گذشتہ ہفتے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی سرحدی جھڑپیں ہوئیں، جن میں دونوں اطراف جانی و مالی نقصانات رپورٹ ہوئے۔

کشیدگی کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان سرحدیں بند کر دی گئیں اور تجارتی تعلقات بھی منقطع ہو گئے۔

تاہم قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قطری اور ترکی کی ثالثی کے نتیجے میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے، جن کے نتیجے میں فائر بندی عمل میں آئی۔  

پاک افغان تنازع کی بنیاد

تاریخی طور پر کسی افغان حکومت نے متحدہ ہندوستان پر قابض برطانوی راج اور افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن کے درمیان 1893 میں ہونے والے ڈیورنڈ لائن معاہدے کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ 

افغان حکومتوں کے خیال میں ڈیورنڈ لائن ایک فرضی لکیر ہےاور برطانوی راج ختم ہونے کے بعد یہ معاہدہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اسی لیے 1947 میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت کی مخالفت کی۔

ییل جرنل آف انٹرنیشنل افیئرز میں شائع ایک تحقیقی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ محمد داؤد سمجھتے تھے کہ برطانوی راج ختم ہونے کے بعد اب پشتون علاقوں کو یا تو آزاد ’پشتونستان‘ ریاست بننا چاہیے یا یہ علاقے دوبارہ افغانستان کا حصہ بن جائیں۔  

1955 کے بعد سردار داؤد نے پشتونستان بنانے کے لیے پاکستان میں اپنے ایجنٹس بھیجنا شروع کیے۔

چمن بارڈر پر کشیدگی

تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سب سے بڑی لڑائی 30 ستمبر 1950 کو ہوئی، جب افغان فوجیں چمن سرحد کے ذریعے تقریباً 48 کلومیٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئیں۔  

چھ دن کی لڑائی کے بعد ییل جرنل کے مطابق افغان فوجی پسپا ہو کر واپس چلے گئے، تاہم اس وقت افغانستان کی حکومت یہ کہا کرتی تھی کہ یہ افغان فوجی نہیں تھے بلکہ مقامی ملیشیا تھی جو آزاد پشتونستان کے حامی تھی۔ بعد میں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔

دوسری لڑائی 

پاکستان نے 1955 میں سابق قبائلی علاقوں پر گرفت مضبوط کرنے کی غرض سے غرض سے انہیں ون یونٹ کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا جو اس وقت افغانستان کے وزیر اعظم محمد داؤد خان کو ناگوار گزرا۔  

افغان حکومت کی حمایت پر کابل، قندھار اور جلال آباد میں پاکستان کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں اور ییل جرنل کے مقالے کے مطابق داؤد خان نے ریڈیو کابل پر پاکستان کے فیصلے کے خلاف بیان دیا۔

پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی کی گئی اور سفارت خانوں سے پاکستان کا جھنڈا ہٹا کر نام نہاد پشتونستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے سفیر بھی واپس بلوا لیے۔

باجوڑ کی لڑائی 

دونوں پڑوسیوں کے مابین تعلقات 1957 تک منقطع تھے لیکن 1960 میں صورت حال مزید خراب ہوئی اور بات پاکستان کی جانب سے فضائی کارروائیوں تک پہنچ گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کے بروکنگز نامی جریدے میں شائع تحقیقی مقالے کے مطابق محمد داؤد خان کے ایما پر افغان ٹروپس اور ملیشا نے باجوڑ پاس پر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

ییل انٹرنیشنل جرنل کے مطابق افغان ٹروپس قبائلیوں کے روپ میں آئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ باجوڑ کے پشتون قبائل ان کی حمایت کریں گے لیکن ایسا نہ ہوا اور افغان فوجیوں اور قبائلیوں کو واپس جانا پڑا۔

جریدے کے مطابق اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے افغانستان میں پاکستان کا سفارت خانہ بند کر دیا اور دخل اندازی کا جواب دیتے ہوئے امریکی ساختہ ایف 86 جنگی طیاروں سے باجوڑ سے متصل افغان صوبہ کنڑ پر بمباری کی۔

پاکستان نے تمام تجارتی گزرگاہیں بند کر دیں اور لینڈ لاکڈ ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان میں معاشی بحران پیدا ہو گیا۔ 

پاکستان کے آرمی انسٹیٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری کے میگزین میں شائع بریگیڈیئر (ر) عمران حیدر جعفری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’افغانستان کی جانب سے دخل اندازی کے خلاف اس آپریشن کو ’آپریشن ریپیئر‘ کا نام دیا گیا تھا۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’اس وقت دیر میں فوج کی موجودگی پر نواب آف دیر شاہ جہان خان اور نواب آف جندول شہاب الدین کو اعتراض تھا لیکن خان آف خار (باجوڑ) ریاست پاکستان کی رٹ بحال کرنے کے حق میں تھے۔‘

نواب آف دیر اور جندول کو مخالفت کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اور افغان لشکر کو مختلف مقامات پر حملوں میں پسپا کیا گیا۔ اس آپریشن میں پاک فضائیہ کی مدد بھی لی گئی تھی۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان میں داخل ہونے اور دونوں ممالک کے مابین اس کشیدگی کو ‘باجوڑ مہم’ کا نام دیا گیا تھا اور اس کے بعد دونوں ہمسایوں کے مابین سفارتی تعلقات 18 مہینے تک منقطع رہے۔

ظاہر شاہ کے افغانستان کے بادشاہ بننے کے بعد ایران نے ایک سہ فریقی اجلاس کروایا جس کے نتیجے میں افغان حکمران نے بارڈر کھولنے اور پاکستان مخالف بیانیے کو ختم کرنے کی ہامی بھری۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ