نوادرات کی بازیابی: لوور میوزیم کا اسرائیلی انٹیلی جنس سے رابطے کی تردید

تل ابیب کی کمپنی نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے چوروں کا سراغ لگانے کا کام دیا گیا ہے تاہم میوزیم کا کہنا ہے کہ اس نے کسی سے کوئی مدد نہیں مانگی۔

پیرس کے معروف لوور میوزیم نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ اس نے قیمتی زیورات کی چوری کی تحقیقات کے لیے کسی اسرائیلی انٹیلی جنس فرم کی خدمات حاصل کی ہیں۔

تل ابیب میں قائم سی جی آئی گروپ نے دعویٰ کیا تھا کہ لوور نے ان سے مدد مانگی ہے کیونکہ کمپنی نے 2019 میں بھی جرمنی کے ایک عجائب گھر سے چوری شدہ نوادرات بازیاب کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

اسرائیلی کمپنی کے سی ای او زوی کا ناوے نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’لوور نے خصوصی طور پر ہم سے چوری میں ملوث افراد کی شناخت کرنے اور چوری شدہ نوادرات واپس لانے کی درخواست کی تھی۔‘

تاہم لوور کے ترجمان نے کہا کہ میوزیم کی انتظامیہ اسرائیلی کمپنی کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے تاہم انہوں نے اس پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

زوی کا ناوے نے وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ درخواست ’ایک ایسے ثالث کے ذریعے آئی تھی جو لوور اور انشورنس کمپنیوں سمیت دیگر اداروں کی جانب سے کام کر رہا تھا۔

دوسری لوور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کسی سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔‘

فرانسیسی پولیس ان چار چوروں کی تلاش میں ہے جنہوں نے اتوار کو لوور میں داخل ہو کر نو قیمتی زیورات چرا لیے تھے۔ رپورٹ کے مطابق چوری کے دوران ایک نایاب تاج، جس پر ایک ہزار سے زائد ہیرے جڑے تھے، چوروں کے بھاگتے وقت گر گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2019 میں جرمنی کے ڈریسڈن گرین والٹ میوزیم سے 18ویں صدی کے نوادرات کی چوری کا واقعہ پیش آیا تھا جن کی مالیت تقریباً ساڑھے 11 کروڑ یورو تھی۔ بعد ازاں سزا یافتہ پانچ مجرموں نے ان میں سے کچھ زیورات واپس کر دیے تھے۔

اس وقت ڈریسڈن کے حکام نے بھی اسرائیلی کمپنی کے ساتھ کسی تعاون کی تردید کی تھی۔ تاہم زوی کا ناوے نے اصرار کیا کہ دونوں عجائب گھروں یعنہ لوور اور ڈریسڈن سے ان کے نمائندوں کے ذریعے رابطہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید تفصیلات دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ درخواست ممکنہ طور پر کسی انشورنس کمپنی، اس کے وکیل یا میوزیم سے منسلک کسی وزارت یا ادارے کے ذریعے آئی ہو۔‘

ان کے بقول: ’ہر فریق کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، میوزیم کے مفادات انشورنس کمپنی یا سکیورٹی کمپنی سے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض فریق اس معاملے کو سامنے لانا چاہتے ہیں جبکہ کچھ اسے دبانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یقیناً فرانسیسی پولیس کو یہ بات پسند نہیں کہ ایک اسرائیلی نجی فرم کو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے شامل کیا گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ