ڈنمارک کے عجائب گھر میں کیلاشی پتلے

ڈنمارک کے عجائب گھر موسگارڈ میں دو ہزار سال پرانی ممی ’گروبیل مین‘ اور کیلاش سے لائے گئے لکڑے کے پتلے گنداؤ سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔

ڈنمارک کے ایک عجائب گھر میں دو ہزار سال پرانی ممی ’گروبیل مین‘ اور پاکستان کے علاقے کیلاش سے لائے گئے قدیم لکڑی کے پتلے گنداؤ سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔

ڈنمارک کے دوسرے بڑے شہر آرہس میں موسگارڈ میوزیم کی بنیاد 1861 میں رکھی گئی۔

چار ایکڑ پر پھیلے اس عجائب گھر میں 26 لاکھ سال پرانے پتھر اور اس کے بعد لوہے کے زمانے، یعنیٰ جب دنیا میں پہلی بار اوزار اور ہتھیار بنانے کے لیے دھات کا استعمال کیا گیا، سے متعلق قیمتی نوادرات موجود ہیں۔

عجائب گھر میں دنیا کے مختلف ملکوں سے لائے گئے پتلے اور نمونے بھی نظر آتے ہیں، جن میں کیلاش کے گنداؤ شامل ہیں۔ ان پتلوں کی نمائش کے لیے باقاعدہ ایک ہال مختص ہے۔

کیلاشی پتلے گنداؤ

1800 سال پرانے گنداؤ کو کیلاش کی وادی بیریر سے 1948 میں لا کر یہاں رکھا گیا۔

روایت ہے کہ گانداؤ کا مقصد کالاشہ خاندان کے بزرگوں کی روحوں کو امر کرنا ہے۔ کئی صدیوں پہلے گنداؤ قبرستان میں نصب کیے جاتے تھے۔

ان لکڑی کے پتلوں کے سر پر موجود ٹوپی عزت اور احترام کی علامت ہوتی ہے۔ گنداؤ کے چہرے اکثر گول جب کہ ہاتھ لمبے ہوتے ہیں اور کمر سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

ان پتلوں کے جسم پر مختلف ڈیزائن کے کپڑے بنائے جاتے ہیں۔ اکثر پتلوں کی کمر پر بیلٹ کے نزدیک اوزار بھی بنائے جاتے ہیں۔

عجائب گھر میں گنداؤ کو ’دی لائیوز آف دی ڈیڈ‘ کے ڈپارٹمنٹ میں رکھا گیا ہے جہاں میکسیکو کے مُردوں کی رنگ برنگی زندگی کی نمائش بھی ہوتی ہے۔

میکسکو کے ’ڈے آف دی ڈیڈ‘ فیسٹیول میں لوگ اپنے رشتے داروں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان کی خاطر مدارت کرتے ہیں۔

’گروبیل مین‘

عجائب گھر کی دوسری سب سے بڑی اور اہم نمائش ایک دو ہزار سال پرانی ممی ’ گروبیل مین ‘ کی ہے۔

یہ ممی مصر کی ممیوں سے بہت مختلف ہے کیوں کہ اس کی کھال چمڑے جیسی ہے۔

گروبیل مین کو 1952 میں ڈنمارک کے علاقے نیبیل سے دریافت کیا گیا تھا۔

یہ ممی زمین میں ایک میٹر کے فاصلے پر دفن تھی۔ دلدل کی مانند زمین کی گیلی مٹی اور ایک خاص قسم کی گھاس سفینگم ماس نے گروبیل مین کو اس عرصے میں محفوظ رکھا۔

اس گھاس کی بڑی تعداد میں موجودگی سے زمین میں ایسے تیزابی جز جمع ہوجاتے ہیں جو کسی بھی قسم کے نامیاتی مادے کو محفوظ کر لیتے ہیں اور اس کے سڑنے کے عمل کو سست کردیتے ہیں۔

عجائب گھر کی انسپکٹر پولین اسنگھ کے مطابق جب گروبیل مین کو زمین سے نکالا گیا تو اس کا جسم غیر معمولی طور پر محفوظ تھا۔

’نہ صرف اس کی ہڈیاں، بلکہ نرم بافتوں جیسے عضلات، اندرونی اعضا اور جلد، حتیٰ کہ اس کے ناخن اور بال بھی محفوظ تھے۔ جب اسے نکالا گیا تو اس کی داڑھی بھی تھی لیکن وہ کچھ وقت میں جھڑ گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’زمین میں آکسیجن کی کمی، تیزابیت اور سفینگم ماس مل کر کھال کو آہستہ آہستہ چمڑے میں بدل دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے جلد کا رنگ گہرا بھورا اور بالوں کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے۔

’گروبیل مین کی ممی اور اس کے بال سو فیصد اصلی ہیں حالانکہ جب وہ زندہ تھا تو اس کی کھال اور بالوں کا رنگ مختلف ہوگا۔‘

انہوں نے بتایا: ’کاربن ڈیٹنگ کے مختلف طریقوں سے معلوم ہوا کہ گروبیل مین 390 قبل مسیح کے آس پاس آئرن ایج میں رہتا تھا۔

’اس وقت زیادہ تر لوگ کسان تھے اور چھوٹے دیہات میں رہتے تھے۔ گروبل مین ایک عام آدمی تھا، مگر اسے تشدد کر کے مارنے کے بعد دفنا دیا گیا۔

’اس کی ہڈیوں کی جانچ سے معلوم ہوتا ہے کہ  مرنے کے وقت اس کی عمر تقریباً 35 سال تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ گروبیل مین کو گلا کاٹ کر قتل کیا گیا۔ آئرن ایج میں وہ واحد شخص نہیں جسے تشدد کرکے مارا اور دلدل میں دفن کیا گیا۔

’اس جیسے اور کئی لوگ ہیں جنہیں دیوتاؤں کے لیے انسانی قربانیوں کے طور پر قتل کیا گیا۔‘

نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ڈنمارک میں 500 سے زائد ممیز اور کنکال دریافت ہوئے ہیں جو 2200 سے 2800 سال قدیم ہیں۔

اس کے علاوہ کئی ممیز جرمنی، نیدرلینڈز، برطانیہ اور آئرلینڈ میں بھی دریافت ہوئی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا