جنگ کی جستجو

جموں و کشمیر کے تقریباً ایک کروڑ لوگ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ سے نہ گھبراتے ہیں اور نہ انہیں اپنے عزیزوں کو کھونے کا غم ستا رہا ہے بلکہ جنگ کا ذکر سنتے ہی ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔

ایک انڈین فوجی 30 ستمبر 2016 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے جنوب مغرب میں واقع عبدلیاں کے مقام پر پاکستانی سرحد کے قریب بنکر سے پہرہ دے رہا ہے (روئٹرز)

بڑی مدت کے بعد سری نگر کے مضافات میں ایک محفل موسیقی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پانچ برس پہلے اندرونی خودمختاری ختم ہونے کے بعد اب بالی وڈ یا تفریحی دنیا سے شاید کوئی ہی بچا ہو جو وادی کی سیر پر نہ آیا ہو۔ 

انڈیا میں یہ گہرا تاثر ہے کہ آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد کشمیر کو آزاد کرکے انڈیا میں ضم کر دیا گیا ہے اور اب یہ ہر شہری پر قومی فرض ہے کہ وہ اس سرزمین پر جا کر انڈیا کا پرچم لہرائے۔

پرچم لہرانے کی رسم آئے دن تاریخی لال چوک میں ادا کی جاتی ہے۔ کشمیری ان مناظر کو دیکھ رہے ہیں۔

چند ماہ پہلے اس مقام پر شراب نوشی کی محفلیں بھی ہونے لگی تھیں لیکن ہمت کر کے دکان داروں نے انہیں بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ کرنے والے چند دکانداروں کو دھر بھی لیا گیا۔

اب جب سرکار نے عوام کو وسیع پیمانے پر مشغول رکھنے اور نظریہ بدلنے کے لیے قومی محفلوں کا منصوبہ شروع کیا ہے تو ایسے میں مقامی لوگوں نے اپنے بل بوتے پر صوفیانہ موسیقی کی محفل منعقد کرنے کا انتظام کیا، جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔

پر وقار اور پر رونق محفل، سُروں کے تال آسمان پر، زیروبم کی دنیا میں غرق کشمیری صوفیانہ کےعاشق، دنیائے سیاست سے دور اور تنہا۔۔۔ یہ ایک ایسی دنیا میں پہنچ گئے تھے کہ جہاں وحدت، وجود اور وجدان ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے میں کانوں میں گونجتی یہ بلند آواز آتی ہے: ’انڈیا پاکستان کے بیچ ایک اور جنگ ناگزیر ہو گئی ہے اور ہماری یہ آرزو پوری ہونے جا رہی ہے۔‘

جھکے ہوئے سرلڑھک گئے، نظریں آسمان کی جانب ٹک گئیں، ساز بند ہوا، آواز حلق میں اٹک گئی اور چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ایک دل دہلانے والا قہقہہ ابھرا جو کئی منٹوں تک جاری رہا۔

پھر کھانسی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔۔۔ جیسے ہم تپ دق کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

یہ منظر ہے اس شام کا جس روز دوپہر میں میڈیا پر انڈیا کی پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی اور جواباً پاکستان کے ایسے ہی الٹی میٹم کی خبریں چاروں جانب گشت کر رہی تھیں۔

بھلا انڈیا پاکستان کے بیچ جنگ کب ختم ہوئی ہے؟ دونوں ملک 70 برسوں سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کے دعوے ہی کر تے جا رہے ہیں، کشمیریوں سے پوچھ لیں، وہ ان کا خمیازہ سات دہائیوں سے اٹھا رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کی ڈیڑھ ارب پر مشتمل آبادی کا جنگ کا دوبارہ ذکر سنتے ہی حواس باختہ ہونا فطری عمل ہے، مگر اس کا غیر فطری عمل جموں و کشمیر میں محسوس کیا جا سکتا ہے، جہاں لوگ جنگ کا ذکر سنتے ہی اطمینان محسوس کرتے ہیں۔

لگتا ہے جیسے جنگ سے ان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ جب محفل موسیقی میں اعلان کرنے والے شخص نے میرے پاس آ کر دوبارہ پوچھا کہ کیا اس بار فیصلہ کن جنگ ہو گی تو میں کچھ لمحوں کے لیے ششدر رہ گئی۔

میں نے ماضی میں جنگ زدہ علاقوں میں جاکر عام لوگوں کے حالات کا خوب مشاہدہ کیا ہے۔ میں جانتی ہوں لائن آف کنٹرول پر آباد بستیاں کس طرح آناً فاناً بے گھر ہو جاتی ہیں اور غذا کے چند ٹکڑوں کی خاطر ارباب اقتدار کے تلوے کیسے چاٹتی رہتی ہیں۔ 

میں نے ہزاروں بچوں کو ٹھٹھرتی سردی اور رات کی تاریکی میں عارضی کمیپوں میں دیکھا ہے اور دورانِ تلاشی معصوم لڑکیوں کے جسموں کی پیمائش کے مناظر دیکھے ہیں۔

دونوں ملکوں کے بیچ جنگوں سے ان ملکوں کے حکمرانوں کو ووٹ تو مل سکتے ہیں، انتخابی جیت یا اقتدار میں برقرار رہنے کا لائسنس بھی مل سکتا ہے مگر ماضی کے جنگوں سے متاثر خاندان اب بھی باز آبادکاری کے لیے ترس رہے ہیں۔

بچوں کو مستقل سکولوں میں ڈالنے سے کتراتے ہیں اور ذاتی املاک کو مزید وسعت دینے کے منصوبوں کو پس پشت رکھتے ہیں۔ گویا ان کی زندگی ایک سوئی پر اٹکی ہوئی ہے اور یہ سوئی تبھی چلے گی جب کوئی مسیحا ان کو قیامِ امن کی ضمانت دے گا۔

اس کے باوجود جموں و کشمیر کے تقریباً ایک کروڑ لوگ جنگ سے نہ گھبراتے ہیں اور نہ انہیں اپنے عزیزوں کو کھونے کا غم ستا رہا ہے بلکہ جنگ کا ذکر سنتے ہی ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔

محفل کا سماں درہم برہم ہو گیا مگر لوگ ہنس رہے تھے اور جنگ کے بارے میں مونچھوں کو تاؤ دے کر بڑے بڑے تبصرے کر رہے تھے۔

بظاہر تو ان کے چہرے ہشاش بشاش نظر آ رہے ہیں، البتہ ان کے چہروں کو باریکی سے پڑھنے سے محسوس ہو رہا تھا کہ ان پر 70 برس کے دھونس دباؤ کی لکیریں جمی ہوئی ہیں۔

آنکھیں پانی کے بغیر خشک ہیں، ہونٹوں پر افسردگی کی تہہ جمی ہوئی ہے اور سیب جیسے گالوں پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔

حالانکہ چند برسوں سے وادی میں عادت پڑی ہے کہ لوگ سرگوشیوں میں بات کرتے ہیں۔ سر راہ خاموش رہتے ہیں، دیوان خانوں کے روایتی دسترخوان پر سیاسی بحث بند ہو گئی ہے۔

گلی کوچوں میں جاسوسی پر مامور اشخاص کی تعداد بڑھ گئی ہے مگر موسیقی کی محفل کا سحر توڑنے کے لیے کسی نے جب جنگ کی خبر سنائی تو بجائے خوف کے چہروں پر تمکنت پھیل گئی۔

  • کیا اس جنگ سے کشمیریوں کو آزادی ملے گی؟
  • کیا اس جنگ سے انہیں اپنی گلی کوچوں میں چلنے پر پابندی ہٹ جائے گی؟
  • کیا ان کا میڈیا عوام کی خواہشات کا آئینہ دار بنے گا؟
  • کیا ہزاروں محبوس نوجوان رہا ہو جائیں گے؟
  • اور کیا ان کے پہاڑ، ندی جھیلیں اور باغات بنکروں، اسلحہ اور بندوقوں سے پاک ہوجائیں گے؟

اگر ایسا ہے تو جنگ ضرور ہونی چاہیے اور جم کے ہونی چاہیے۔

بقول ایک صحافی ’ویسے بھی ہم روز روز مرتے ہیں اور مارے جا رہے ہیں۔ اگر ایک بار ہی ایٹم بم گرانے سے ہمارے درد کا مداوا ہو سکتا ہے تو جنگ کوئی بری چیز نہیں۔

’کم ازکم اس قوم کو اس ہزیمت سے نجات تو حاصل ہو گی، جس نے 70 برسوں سے ہم سے سب کچھ چھین کرہمیں مفلوج بنا دیا ہے۔‘

صحافی خود پر ٹکی ان نظروں سے دور بھاگنے لگا جو کئی ماہ سے اس کو گھور رہی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈںٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ