ریکو ڈک کے کنٹری مینیجر ضرار جمالی نے جمعرات کو کہا ہے کہ سونے اور تانبے کی کان کے 7 ارب ڈالر کے فیز ون کے لیے مکمل مالی وسائل حاصل کر لیے گئے ہیں اور منصوبہ شیڈول کے مطابق جاری ہے، جس کے تحت 2029 کے اوائل میں پہلی بار تانبے کی برآمد شروع ہو گی۔
انہوں نے اسے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری قرار دیا ہے۔
ریکو ڈک، جو پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں واقع ہے، دنیا کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ تانبے اور سونے کے ذخائر میں سے ایک ہے۔
یہ منصوبہ حکومت پاکستان اور کینیڈا کی کمپنی بیریک گولڈ کی مشترکہ ملکیت ہے اور اسے غیر ملکی سرمایہ کاری کی بحالی، معدنی شعبے کے استحکام اور طویل مدتی برآمدات بڑھانے کے حکومتی منصوبے کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
کان ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب ایک دور دراز علاقے میں واقع ہے جہاں سکیورٹی، انفراسٹرکچر اور ترقیاتی مسائل نے ماضی میں عالمی سرمایہ کاروں کو دور رکھا۔
منصوبے کے پہلے مرحلے میں ایک بڑی اوپن پٹ کان، 2 ہزار ایکڑ کا مائننگ سائٹ، دنیا کے بڑے تانبہ پروسیسنگ پلانٹس میں سے ایک، اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر شامل ہے۔
تعمیراتی لاگت 5.66 ارب ڈالر ہے جو فنانسنگ چارجز اور دیگر اخراجات ملا کر تقریباً 7 ارب ڈالر بنتی ہے۔ حکومت اسے پاکستان کی معاشی سفارت کاری کا طویل المدتی ستون سمجھ رہی ہے، جبکہ بیریک گولڈ کی شمولیت دیگر عالمی سرمایہ کاروں کے لیے بھی مثبت اشارہ قرار دی جا رہی ہے۔
اس بارے میں ریکو ڈک کے کنٹری مینیجر ضرار جمالی نے اسلام آباد میں پاکستان بزنس کونسل کی جمعرات کو ہونے والی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ’فیز ون کی تعمیراتی لاگت 5.66 ارب ڈالر ہے اور فنانسنگ اور دیگر اخراجات شامل کر کے یہ رقم 7 ارب ڈالر تک پہنچتی ہے۔
’فنانسنگ محفوظ ہے۔ بیریک ہو یا کوئی اور، ہم پوری رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ ہمارا مستقبل اس منصوبے سے جڑا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے تصدیق کی کہ منصوبے کے لیے جاپان، امریکہ، سویڈن اور کینیڈا کے 11 بین الاقوامی بینکوں کے کنسورشیم سے 3.5 ارب ڈالر کا بیرونی قرض حاصل ہو چکا ہے۔ ریاستی اداروں اور منصوبے کے شراکت داروں کی منظوری بھی مکمل ہے۔
شیڈول کے مطابق، کان 2028 کے آخر تک پراسیسنگ شروع کر دے گی اور 2029 کے اوائل میں تانبے کا پہلا برآمدی کنسائنمنٹ بھیج دیا جائے گا۔ منصوبہ کم از کم 40 سال تک چلنے کی توقع ہے۔
ضرار جمالی نے مقامی بھرتیوں اور سماجی ترقی کے ماڈل کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ ’ہماری کل افرادی قوت میں 77 فیصد بلوچستان سے ہے اور ان میں سے 65 فیصد صرف چاغی سے ہیں۔ بھرتی کا نظام ترجیحی بنیادوں پر ہے۔ پہلے قریبی دیہات، پھر چاغی، پھر باقی صوبہ۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کمپنی نے اس سال صحت، تعلیم اور پانی کے منصوبوں پر ایک کروڑ ڈالر خرچ کیے، جن میں سات سکولوں کی مرمت اور دو میڈیکل سینٹرز کا قیام شامل ہے۔
’تمام فیصلے مقامی کمیونٹی کرتی ہے۔ یہ منصوبہ لوگوں کے لیے اور لوگوں کے ذریعے ہے۔‘
دنیا بھر میں بیریک گولڈ کی توسیعی پالیسیوں کے ازسرنو جائزے کی خبروں کے باوجود ضرار جمالی نے کہا کہ کمپنی کی قیادت کئی بار پاکستان کے لیے اپنی مکمل وابستگی کی یقین دہانی کرا چکی ہے۔
ریکو ڈک کی ترقی کو پاکستان کی صلاحیت کا ایک اہم امتحان سمجھا جا رہا ہے کہ وہ بڑے غیر ملکی سرمایہ کاری منصوبوں کو کس طرح سنبھالتا ہے، اپنی برآمدات کو متنوع بناتا ہے اور معدنی وسائل پر مبنی علاقوں میں استحکام لاتا ہے۔
یہ منصوبہ کامیابی سے مکمل ہوا تو یہ پاکستان کا سب سے بڑا زرمبادلہ کمانے والا منصوبہ بن سکتا ہے۔