ہم جس زمانے میں سکول پڑھا کرتے تھے تو بتی بہت جایا کرتی تھی (راقم پڑھنے کے بعد پڑھانے سے بھی تائب ہو گیا، مگر بتی اب بھی اسی طرح جاتی ہے) تب لوگوں کو اندھیرے میں رہنا آتا تھا۔
سرشام ہی لالٹینوں کی چمنیاں چمکا کے ان میں تیل ویل بھر بھرا کے برآمدے کے دروں میں کنڈوں سے لٹکا دیا جاتا تھا۔ ایک آدھ گیس کا ہنڈا بھی کسی وی آئی پی کی وجہ سے کسی کونے میں سنسنا رہا ہوتا تھا۔
اس جادوئی روشنی میں ہمارے بڑے اور ان کے بھی بڑے، کچھ آپ بیتی، کچھ ہڈ بیتی، کچھ سینہ گزٹ سے ملی معلومات کی روشنی میں سنہ 57 سے لے کر 77 تک کے واقعات سنایا کرتے تھے۔
موضوع ان کا عموماً یہی ہوتا تھا کہ جب سنتالیس میں سکول بند ہوئے تو پھر کسی کے لیے کبھی نہیں کھلے۔
کبھی ایوب خان کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے دوران طلبہ کی منہ زوری کا ذکر ہوتا، کبھی بھٹو صاحب کے زمانے میں ہونے والی بندشوں کی بات ہوتی۔
ہم بچے منہ کھولے حیرت سے سنتے تھے کیونکہ دور تھا ضیا کے مارشل لا کا اور ہمارے سامنے کبھی پتا بھی نہ کھڑکا تھا۔
اچانک چھٹی کبھی نہیں ہوئی اور یہ حسرت دل میں لیے ہم یونیورسٹی سے نکل آئے کہ کبھی ہمارا پرچہ بھی کینسل ہو، کبھی ہم بھی پتھراؤ اور آنسو گیس چلنے کے مناظر دیکھیں اور کبھی ہم بھی احتجاج کے ولولے کو محسوس کریں۔
پھر ہوا یوں کہ یہ حسرت، حسرت نہ رہی۔ پچھلے ناجانے کتنے عرصے سے سکون کے دن انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں۔
دیگر ارضی و سماوی آفات کو تو ایک طرف رکھیے، سیاسی جماعتوں کے اسلام آباد کی طرف مارچ آئے دن زندگیوں کو مفلوج کر دیتا ہے۔
آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے آج ہماری پریشانی کا کارن کیا ہے۔ ٹی ایل پی غزہ کی صورت حال پہ احتجاج کرنے اسلام آباد کی طرف روانہ ہے۔
جس ڈھنگ سے یہ جماعت احتجاج کرتی آئی ہے، سکیورٹی ادارے بھی اس احتجاج کا زور توڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ گھر سے پڑھنے، کام کرنے اور مجبوری میں کہیں جانے کے لیے نکلنے والے سخت پریشانی کا شکار ہیں۔
موٹر ویز بند، ہائی ویز پہ کنٹینر، سڑک پہ گڑھے، شہر کی سڑکوں پہ کنٹینر، شاہراہوں پہ پتھراؤ۔
اس سال کی ابتدا ہی سے کہیں جنگ تو کبھی شدید موسمی حالات کے باعث معمول کی زندگی پہلے ہی شدید متاثر رہی ہے۔ یہ دو، ایک ماہ ہیں اس کے بعد شدت کا سرما منتظر ہے۔
حل کیا ہے؟ سیاسی جماعتوں کے مظاہروں اور مارچ کو پرامن رکھنے کا طریقہ کیا ہے؟ سارے کھرے پھر ایک ہی گھر جاتے ہیں۔ عوام کی سیاسی تربیت۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیر اس قسم کے متشدد مظاہروں میں عوام تو شریک بھی نہیں ہوتے۔ یہ کون لوگ ہوتے ہیں؟ سب ہی جانتے ہیں اور ان ہی میں ’میسلینئیس فیکٹر‘ بھی ہوتا ہے جس کا نہ تو ترجمہ ممکن ہے اور نہ ہی یہ پہچان میں آتے ہیں۔
یہ فیکٹر، لوٹ مار کے لیے اس طرح کے مظاہرین کے ساتھ ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے اگر مناسب انتظامات نہ کیے جائیں تو معاملات بہت بگڑ سکتے ہیں۔
اب ایسا ہے کہ گھر سے دہی لینے کے لیے نکلنے والے کو بھی امام ضامن باندھ کے بھیج رہے ہیں کہ بھیا پیٹھ دکھائے جاتے ہو جلد منہ دکھانا۔
سکولوں کی تو چھٹی ہوئی مگر بیماری تکلیف تو دن دیکھ کر نہیں آتے۔ ہسپتال جانے والے بے چارے سب سے زیادہ رلتے ہیں۔
2017 کے ٹی ایل پی کے ملک گیر احتجاج میں مجھے دیگر بہت سے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ فیصل آباد میں پھنسنے کا تجربہ ہو چکا ہے۔ بہت سے ناخوشگوار واقعات اور یادیں اس مظاہرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
غزہ کی صورت حال پہ ہر دل رکھنے والا دکھی ہے اور اس کا حل چاہتا ہے۔ دنیا میں غزہ کے ساتھ یک جہتی کے مظاہرے ہوتے ہیں۔
ہم دامے درمے سخنے فلسطین کے ساتھ ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ آگے راستہ بند ہے۔
راستے کھلے رہیں، زندگی چلتی رہے، ملک ترقی کرتے رہیں، تب ہی ہم ایک مضبوط آواز بن سکیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔