وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے جمعے کو کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے احتجاج کے لیے کوئی درخواست نہیں دی اور مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ٹی ایل پی نے جمعہ (10 اکتوبر) کو ’لبیک اقصیٰ‘ کے نام سے لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم اس مارچ کو روکنے کے لیے گذشتہ روز پنجاب میں پولیس کی جانب سے کریک ڈاؤن کیا گیا، جس میں اب تک دو افراد کی موت جبکہ کارکنوں سے جھڑپوں میں متعدد پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
جمعے کو بھی لاہور میں صورت حال کشیدہ ہے اور ٹی ایل پی کارکنان اور پولیس آمنے سامنے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت میں وزیر مملکت برائے داخلہ کا کہنا تھا کہ ’ٹی ایل پی نے احتجاج کے لیے کہاں اجازت مانگی؟ اجازت کی شرائط پوری کرنے کے لیے کون سی یقین دہانی کروائی گئی؟‘
طلال چوہدری نے لاہور میں ٹی ایل پی کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹی ایل پی نے پولیس پر شیشے کی گولیاں، نمک اور نقصان پہنچانے والے کیمیکل استعمال کیے۔ ’ڈنڈے اور دوسرے چیزیں تقسیم کرنے کے لیے پورا نیٹ ورک ہے جو پکڑا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ فلسطین کے لوگوں کو بیان بازی نہیں امن چاہیے۔ انہیں اپنا وطن اور زمین چاہیے۔ ’نام نہاد احتجاج، بیانات اور اس پر مذہبی یا سیاسی رنگ بازی کی ضرورت نہیں۔‘
وزیر مملکت نے مزید کہا کہ ’جب 20 نکاتی امن معاہدہ فلسطین نے، جس کا یہ مقدمہ ہے، جس کا یہ سب پہلا حق ہے، اس نے حماس سمیت تسلیم کر لیا ہے تو اب احتجاج کرنے والوں کو امن قبول نہیں۔ امن معاہدہ پوری مسلم امہ کی کامیابی ہے۔‘
لاہور میں ٹی ایل پی مرکز کے باہر کی صورت حال یہاں دیکھیے:
اسلام آباد میں سکیورٹی سخت، کنٹینرز لگ گئے
وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے جمعے کو ٹی ایل پی کے لاہور تا اسلام آباد مارچ کے پیش نظر شہر بھر میں سکیورٹی سخت کردی ہے اور شہر کے مختلف داخلی و خارجی راستوں پر کنٹینرز رکھ کر راستے فل الحال جزوی بند کر دیے گئے ہیں جبکہ پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
جمعے کو اسلام آباد کی مختلف سڑکوں پر کنٹینرز رکھے نظر آئے۔ پولیس کی جانب سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان فیض آباد کے مقام پر امن و امان کی صورت حال کے باعث ٹریفک کا متبادل پلان بھی جاری کیا گیا جبکہ شہر میں ہر قسم کی ہیوی ٹریفک کا داخلہ اگلے حکم تک بند کر دیا گیا ہے۔
بڑی سڑکوں پر تین لینز میں سے دو بند کر دی گئی ہیں جبکہ ایک کھلی رکھی گئی ہے۔
اسلام آباد میں سڑکوں کی صورت حال یہاں جانیے:
گذشتہ روز سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز اسلام آباد محمد شعیب خان نے فیض آباد کا دورہ کیا اور سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔
اسلام آباد پولیس کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان کے مطابق ایس ایس پی آپریشنز نے ہدایت دی کہ ’قانون کی بالادستی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔‘
دوسری جانب لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین بھی دو روز کے لیے بند کر دی گئی ہے۔
لاہور ٹریفک پولیس کی جانب سے شہر کے بند راستوں کی اطلاع دیتے ہوئے متبادل ٹریفک پلان دیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر راولپنڈی ڈاکٹر حسن وقار چیمہ نے بھی ضلعے بھر میں 8 سے 11 اکتوبر تک دفعہ 144 نافذ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
کمشنر آفس سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ضلعی انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ’بعض گروہ اور عناصر امن و امان میں خلل ڈالنے کے ارادے سے احتجاج یا دیگر سرگرمیوں کی تیاری کر رہے تھے۔‘
ڈپٹی کمشنر کے حکم نامے کے تحت راولپنڈی میں تمام احتجاجی مظاہروں، دھرنوں، ریلیوں، جلسوں، لاؤڈ سپیکر کے استعمال، ڈبل سواری اور ہتھیاروں یا خطرناک اشیا لے جانے پر مکمل پابندی ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدامات عوامی سلامتی اور امن عامہ کے تحفظ کے لیے کیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
اس سے قبل محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے 8 اکتوبر 2025 کو جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کے مطابق صوبے میں دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق: ’دشمن عناصر جن میں را (انڈین خفیہ ایجنسی)، ٹی ٹی پی (کالعدم تحریک طالبان پاکستان)، بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) اور داعش شامل ہیں، مذہبی رہنماؤں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔‘
لہذا ’ایسے حالات میں عوامی اجتماعات، جلسے، جلوس اور دھرنے دہشت گردوں کے لیے آسان ہدف بن سکتے ہیں، اس لیے صوبے بھر میں چار یا اس سے زائد افراد کے کسی بھی اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‘
محکمہ داخلہ کے مطابق اس دوران اسلحہ لے جانے اور نمائش کرنے، لاؤڈ اسپیکر کے استعمال اور نفرت انگیز یا اشتعال انگیز مواد کی اشاعت و تقسیم پر بھی مکمل پابندی ہوگی۔
یہ حکم فوری طور پر نافذ العمل ہوگا اور 10 روز تک برقرار رہے گا۔