ٹی ایل پی اور مرکزی مسلم لیگ کیا ن لیگ کے لیے چیلنج بن سکتی ہیں؟

تجزیہ کاروں کے خیال میں ٹی ایل پی اور ایم ایم ایل کو 2018 کے انتخابات میں ن لیگ کا ووٹ بینک تقسیم کر کے سیاسی انجنیئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا تھا لیکن اس مرتبہ ان جماعتوں کو اس طرح پذیرائی ملنا مشکل نظر آتا ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک شخص ایک گاڑی پر لگی تحریک لبیک پاکستان کے مرحوم سربراہ خادم حسین رضوی کی تصویر کے سامنے سے گزر رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ان دنوں سیاسی مہم اور جوڑ توڑ اکثر سیاسی جماعتوں نے شروع کر دیا ہے لیکن گذشتہ انتخاب میں پنجاب کی سیاست میں نمودار ہونے والی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور مرکزی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) ابھی تک سیاسی طور پر زیادہ متحرک دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔

دونوں جماعتوں کے ترجمان دعویٰ کر رہے ہیں کہ آئندہ چند روز میں یہ جماعتیں سیاسی مہم کا باقائدہ آغاز کریں گی۔

لاہور سیاسی امور کے سینیئر صحافی حسنین اخلاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مرکزی مسلم لیگ میں زیادہ تر ملی مسلم لیگ کے ہی رہنما اور کارکنان شامل ہیں۔ لیکن اب کوئی بھی ملی مسلم لیگ سے تعلق کو تسلیم نہیں کر رہا، سب مرکزی مسلم لیگ کے نام سے ہی تعارف کرا رہے ہیں۔

’ملی مسلم لیگ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے رجسٹریشن نہی ملی تھی پہلے بھی ملی مسلم لیگ کا صرف نام استعمال کیا تھا ٹکٹیں کسی اور نام سے جاری ہوئی تھیں لہذا اب بھی بیشتر وہی لوگ اس پارٹی کو مرکزی مسلم لیگ کے نام سے چلا رہے ہیں۔‘

مرکزی مسلم لیگ کے ترجمان حنظلہ عماد کے مطابق یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ مرکزی مسلم لیگ میں ملی مسلم لیگ کے کتنے رہنما یا کارکن ہیں لیکن ’ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں‘۔

سوال اٹھتا ہے کہ آئندہ سال فروری میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں یہ دو جماعتیں پنجاب میں کس حد تک متحرک ہو سکیں گی اور ن لیگ یا کسی دوسری بڑی جماعت کے لیے کتنا بڑا چیلنج بن سکیں گی؟

تجزیہ کاروں کے مطابق ان دونوں جماعتوں کو 2018 کے انتخابات میں سیاسی انجنیئرنگ کے ذریعے ن لیگ کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ ان جماعتوں کو اس طرح پذیرائی ملنا مشکل نظر آتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمیٰ بخاری کے مطابق ان کی جماعت اپنے منشور اور ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ ’ہر سیاسی جماعت کے لیے میدان کھلا ہے۔ ہر سیاسی  جماعت آئینی و قانونی طور پر انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے۔ نون لیگ کو کسی جماعت سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی پنجاب ان گڑھ تھا اور اب بھی عوام ہمارے ساتھ ہے۔‘

انتخابی تیاریاں

ترجمان تحریک لبیک صدام بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم انتخابات کی تیاریاں جلد شروع کریں گے۔ ٹی ایل پی نے 17 نومبر کو لاہور میں انتخابی مہم بڑی ریلی کے انعقاد سے شروع کرنی ہے۔ پنجاب سمیت ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی امیدواروں سے ٹکٹوں کے لیے درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں۔ الیکشن کی حکمت عملی بھی علامہ خادم رضوی کے اگلے ہفتے سالانہ عرس کے بعد تیار کر لی جائے گی۔‘

صدام بخاری کے بقول: ’سالانہ عرس کے موقع پر پارٹی سربراہ سعد حسین رضوی سیاسی منشور اور انتخابات میں امیدواروں سے متعلق اعلان بھی کریں گے۔ ہمیں ابھی تک کوئی روکاوٹ نہیں ہے اس لیے آزادانہ طور پر حصہ لیں گے۔

’تاہم اس بارے ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ اتنخابی اتحاد کسی سے کرنا ہے یا پہلے کی طرح الگ اپنے انتخابی نشان کرین پر لڑنا ہے۔‘

مرکزی مسلم لیگ کے مرکزی ترجمان حنظلہ عماد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے الیکشن کمیشن میں مرکزی مسلم لیگ کے نام سے جماعت رجسٹرڈ کرائی ہے۔ خالد مسعود سندھو کی قیادت میں اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ جب سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں 14 مئی کو انتخاب کرانے کا حکم دیا تھا ہم نے اس وقت بھی 272 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے تھے۔‘

حنظلہ کے مطابق ’ہم نے آئندہ عام انتخابات کے لیے بھی پنجاب سمیت ملک کے دیگر حلقوں سے بھی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے ہیں۔ ابھی تک ہم پر کسی قسم کا دباؤ نہیں لیکن جس طرح ایک جماعت کو برابری کی بنیاد پر مواقعے دیئے جا رہے ہیں اسی طرح تمام جماعتوں کے لیے میدان کھلا ملنا چاہیے۔

’ہم نے اسرائیلی حملوں کے خلاف فلسطین کے حق میں کئی مارچ بھی کیے ہیں۔ جلد ہی انتخابی جلسوں اور ریلیوں کا اہتمام بھی کریں گے ہمیں عوامی حمایت حاصل ہو گی۔‘

ممکنہ سیاسی کردار

تجزیہ کار وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انتخابات میں ویسے تو کئی سیاسی جماعتیں حصہ لیتی ہیں لیکن ہر بار کچھ جماعتوں کو کسی نہ کسی مقصد کے تحت الیکشن میں اتارا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’2018 کے انتخابات میں ٹی ایل پی سے پہلے دھرنا دلوایا گیا۔ پھر نون لیگ کا راستہ روکنے کی غرض سے ووٹ تقسیم کرنے کے لیے سیاسی میدان میں اتارا گیا۔ اسی طرح ایم ایم ایل کے نام سے پارٹی بنا کر الیکشن لڑایا گیا تھا۔ اب بھی یہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں لیکن اس بار ان جماعتوں کو شاید پہلے کی طرح پذیرائی حاصل نہ ہو سکے۔‘

وجاہت مسعود کے بقول، ’یہ دونوں جماعتیں کیونکہ مذہبی منشور رکھتی ہیں اس لیے مذہبی سوچ رکھنے والا عوام کا بڑا طبقہ ان جماعتوں کا حامی ہے۔ اس لیے نون لیگ شاید ان دونوں جماعتوں سے مستقبل میں بات چیت کر کے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نئی بننے والی یہ دونوں جماعتیں اگرچہ ابھی تک ملکی سطح یا پنجاب کی حد تک اس حالت میں نہیں کہ نشستیں جیت سکیں البتہ ووٹ ضرور توڑ سکتی ہیں۔ اس لیے ان کا سیاسی کردار یہی ہو سکتا ہے کہ انہیں مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت کی حمایت کرنے کے بدلے ایک دو نشست مل سکیں تاکہ یہ بھی سیاسی دھارے میں شامل ہو سکیں۔‘

سلیم بخاری کے مطابق، ’ماضی میں ان دونوں جماعتوں کو سیاسی انجنیئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا اور اس بار وہ کردار بھی ادا کرنے کی حالت میں یہ دونوں جماعتیں نہیں ہیں نہ ہی پہلے والے اب حالات ہیں۔

’ٹی ایل پی کے فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی حکم پر عمل درآمد  کے معاملہ پر سپریم کورٹ کی جانب سے دیکھنا ہو گا کہ وہ ٹی ایل پی کو سیاسی کردار کی اجازت دیتی بھی ہے یا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ نون جس طرح سے سیاسی طور پر آگے بڑھ رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان جماعتوں کو بھی سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کرے گی۔‘

کس پارٹی کی عوام میں کتنی مقبولیت ہے اس کا اندازہ تو صاف اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں آٹھ فروری کو ہو جائے گا لیکن بعض قدرے چھوٹی جماعتیں حیران کن نتائج دیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست