صرف 18 نشستوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ بننے والے منظور وٹو کی سیاسی زندگی

پنجاب کے سابق وزیر اعلی پنجاب میاں منظور احمد وٹو کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ طویل علالت کے بعد منگل کو لاہور میں انتقال کر گئے۔

 

کئی دہائیوں تک ایوانوں میں سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جانے والے منظور وٹو مختلف بڑی سیاسی جماعتوں میں اہمیت رکھنے کے بعد سیاسی منظر نامہ سے کئی سالوں سے غائب رہے (انڈپینڈنٹ اردو)

پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں منظور احمد وٹو کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ طویل علالت کے بعد منگل کو لاہور میں انتقال کر گئے۔

ان کے اہل خانہ کی اطلاع کے مطابق منظور وٹو کی نماز جنازہ ان کے آبائی شہر اوکاڑہ میں حویلی لکھا وساوے والا گراونڈ میں بدھ کی دوپہر دو بجے ادا کی جائے گی۔

منظور وٹو کی سیاسی زندگی

کئی دہائیوں تک ایوانوں میں سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جانے والے منظور وٹو مختلف بڑی سیاسی جماعتوں میں اہمیت رکھنے کے بعد سیاسی منظر نامہ سے کئی سالوں سے غائب رہے۔

پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے میاں منظور وٹو کو کئی دہائیوں تک گیم چینجر سمجھا جاتا رہا ہے۔ سب سے زیادہ ان کی سیاسی صلاحیتیں پنجاب کے ایوانوں میں اس وقت گونجی جب انہوں نے 1993میں میاں نواز شریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے انہی کی جماعت کے وزیر اعلی غلام حیدر وائیں کے خلاف اپنی جماعت مسلم لیگ جونیجو کی 18نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کی حمایت سے تحریک عدم اعتماد کامیاب کرا کے وزیر اعلی پنجاب منتخب ہوگئے۔ اس سے قبل وہ تین بار پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی منتخب ہوئے۔

پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ ریکارڈ کے مطابق میاں منظور وٹو 1939میں اوکاڑہ شہر کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوائے۔ ابتدائی تعلیم اسی شہر جبکہ میٹرک کے بعد لاہور کے مختکف تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم رہے۔ جنرل ضیا دور ختم ہونے کے بعد وہ 1985سے 1993تک مسلم لیگ کا حصہ رہے۔ پھر پنجاب میں نو ستاروں پر مشتمل بننے والے اتحاد میں وہ مسلم لیگ جونیجو کی ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ اس کے بعد 1993 سے 1995 تک مختصر عرصے کے لیے پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر بھی رہے۔ انہوں نے 2018میں تحریک انصاف کی حمایت سے بھی ان کے بیٹے خرم وٹو نے الیکشن لڑا۔ منطور وٹو کو 2016تک پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب کا صدر بھی بنایا تھا۔

 

میاں منظور احمد وٹو 1993 میں جب وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ جونیجو کے پاس پنجاب اسمبلی میں صرف  18 نشستیں تھیں۔

اس وقت پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تقریباً برابر 100,100 نشستیں تھیں۔ لیکن جونیجو لیگ 18نشستوں کے ساتھ گیم چینجر حیثیت اختیار کر گئی۔ پہلے جونیجو لیگ نے ن لیگ کا ساتھ دیا تو غلام حیدر وزیر اعلی منظور وٹو سپیکر بن گئے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جب میاں نواز شریف کی وفاق میں حکومت ختم ہوئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو  میاں منظور وٹو نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر وزارت اعلی کا عہدہ دینے کی شرط پر غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرائی اور خود وزیر اعلی بن گئے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور کے سینئر پارلیمانی صحافی گوہر بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتا کہ  ’اس تحریک میں مسلم لیگ کے منحرف ارکان، آزاد امیدوار اور پیپلز پارٹی کی حمایت شامل تھی۔ تحریک کامیاب ہونے پر میاں منظور وٹو وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔ یہ اتحاد بنیادی طور پر پیپلز پارٹی اور جونیجو لیگ کا تھا، جس میں وٹو کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ ملا جبکہ پیپلز پارٹی کو کابینہ میں زیادہ حصہ ملا۔

’یہ عمل سیاسی جوڑ توڑ ارکان کی منحرف ہونے  اور وفاقی سطح پر پیپلز پارٹی کی اثر و رسوخ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اسے اکثر ہارس ٹریڈنگ قرار دیا جاتا ہے۔ بعد میں صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے بحالی کے بعد وٹوایک سال عرصے کے لیے دوبارہ وزیر اعلیٰ بنے۔ وہ دھیمی لہجے، خوش اخلاق لیکن بہادری کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں خاص اہمیت رکھتے تھے۔‘

میاں منظور وٹو نے 2023میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’ہر سیاسی جماعت کا ٹارگٹ اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ تاکہ حکومت بنا کر عوامی خدمت سے سیاسی طور پر استحکام حاصل کیا جاسکے۔ میں نے ہمیشہ خدمت کی سیاست پر یقین رکھا کاص طور پر اپنے حلقے اور علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کیے اسی لیے انہوں نے بار بار منتخب کر کے ایوانوں میں پہنچایا۔‘

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے سینئر سیاست دان میاں منظور احمد وٹو کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور ان کی عوامی خدمات کے انمول کردار، جمہوریت کو مضبوط بنانے میں خدمات اور قومی اتحاد کے لیے ان کی کاوشوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے بھی ان کے انتقال پر اظہار افسوس کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی