کیا مستحکم سیاسی سیٹ اپ سے معاشی ترقی آئے گی؟

کیا لمبے عرصے تک چلنے والا سیاسی ماڈل ہی ترقی کا واحد زینہ ہے یا اس کے لیے معیشت میں سٹرکچرل تبدیلیاں بھی درکار ہیں؟

معاشی ترقی کے لیے متعدد لوازمات درکار ہیں، صرف سیاسی استحکام کافی نہیں۔ زیر نظر تصویر میں پاکستانی پارلیمان کا بیرونی منظر دیکھا جا سکتا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ملک کا پہلا چیف آف ڈیفنس سروسز بنا دیا گیا ہے، جس کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ملک میں لمبے عرصے کے لیے سیاسی استحکام آئے گا، جس کی وجہ سے معاشی ترقی بھی ہو گی۔

ترقی کے اس خیال کو تقویت پاکستان کے موجودہ قوانین کی ان شقوں سے بھی ملتی ہے، جس کے مطابق صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے پر آرمی چیف کو 2030 کے بعد بھی پانچ سال کی توسیع دے سکتے ہیں یا مزید پانچ سال کے لیے ان کی دوبارہ تقرری کر سکتے ہیں۔

ان قوانین کے تحت آرمی چیف ایک طویل عرصے تک ممکنہ طور پر اس عہدے پہ براجمان رہ سکتے ہیں۔

کئی حلقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ پاکستان 10 سالہ سیاسی استحکام کے ماڈل کی طرف جا رہا ہے اور پالیسی ساز اس طویل المدتی سیاسی استحکام کو معاشی استحکام کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک چین، روس، ترکی، سنگاپور یا خلیجی ریاستوں کی طرح معاشی ترقی کا مسافر بن سکے۔

لیکن کیا پاکستان کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے کیونکہ ہر ملک اور خطے کے حالات مختلف ہیں؟

مثال کے طور پر 60 سال پہلے سنگاپور ایک غریب ملک تصور کیا جاتا تھا لیکن 60 لاکھ کی آبادی والے اس ملک نے بڑی تیزی سے معاشی ترقی کی۔

2023 میں اس کے جی ڈی پی کا حجم 837 ارب ڈالرز، فی کس آمدنی ایک لاکھ 41 ہزار ڈالرز اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا بہاؤ 141 ارب ڈالرز تھا۔ 

لیکن یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ سرد جنگ کے دوران سنگاپور کو اپنے دفاع پربہت کم خرچ کرنا پڑا جب کہ اس کی بندرگاہوں کی جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اس کی جہاز رانی کی صنعت نے بہت ترقی کی.

اس ساری ترقی کو صرف سنگاپور میں آمریت یا ایک جماعتی نظام سے جوڑا نہیں جا سکتا۔

چین میں 1949 کے انقلاب کے بعد جاگیرداری اور مذہبی طبقے کی اجارہ داری کو ختم کیا گیا۔ تعلیم، صحت اور سماجی ترقی پر خطیر رقم خرچ کی گئی اور معیشت میں ریاست کے اثر کو بہت بڑھایا گیا۔

 جس کی وجہ سے تعلیم کی شرح کچھ ہی عشروں میں بہت بہتر ہوئی۔ شرح زندگی جو انقلاب کے وقت صرف 36 یا 37 برس تھی، وہ 1980 تک 60 سے تجاوز کر گئی۔

تمام جنگوں اور بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود 1949 سے لے کر 70 کی دہائی تک اوسطاً معاشی شرح نمو پانچ فیصد رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 بیسویں صدی کے پہلے عشروں میں ترکی کی معاشی ترقی کے پیچھے سرد جنگ اور باسفورس کی جغرافیائی اہمیت اہم عوامل میں سے چند تھے۔ ترکی پہلی عالمی جنگ سے پہلے بھی ایک عالمی طاقت تھا، تو وہاں کی ترقی کو صرف طیب اردوغان کے طویل دور حکمرانی سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔

اب آتے ہیں پاکستان کی طرف۔

جو لوگ موجود سیاسی سیٹ اپ کی پائیداری اور طویل مدتی کو ممکنہ معاشی ترقی سے جوڑتے ہیں، ان کو یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ایوب خان، جنرل ضیا اور مشرف نے بھی ملک پر طویل عرصے حکومت کی۔ لیکن کیا ان طویل آمریتوں کے باوجود بھی پاکستان معاشی طور پر ترقی کر سکا؟

ہمیں چین میں پالیسی کے تسلسل کی مثال دی جاتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ چین نے جاگیردارانہ نظام اور مذہبی طبقے کی بدمعاشی کو ختم کیا۔ عوام کو توہمات سے نکال کر جدید تعلیم پر لگایا۔ صحت اور سماجی ترقی کو بہتر کیا۔

پاکستان میں پیداواری لاگت اس وقت خطے میں سب سے زیادہ ہے، جس کی ایک وجہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ کوئی جادو کی چھڑی ہے کہ جس سے فوری طور پر تیل اور گیس کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ اس سے کیا خام مال کی پیداوار ملک میں شروع ہو جائے گی۔

  کیا یہ جادو کی چھڑی فوری طور پر انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو لگام دے گی  اور گردشی قرضے کا مسئلہ حل کر دے گی؟ کیا یہ وفاقی حکومت کے شاہانہ اخراجات کا قلع قمع کردے گی؟

بات سیدھی سی ہے کہ پاکستان کا اندرونی اور بیرونی قرضہ 200 ارب ڈالرز سے زیادہ کا ہے، جو اگلے چار عشروں میں 400 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ کا ہو جائے گا۔

برازیل جیسی بڑی معیشت 280 ارب ڈالرز کے قرضے کے بعد لڑکھڑا گئی تھی۔ ارجنٹینا اور میکسیکو کے قرضے بھی جب 250 بلین ڈالرز سے بڑھے تو وہ معاشی تباہی کی نہج پہ پہنچ گئے تھے۔

دفاع، گردشی قرضے اور سود کی ادائیگی پاکستان کے تین بڑے معاشی مسائل ہیں۔

وفاقی حکومت کے بے تکے انفراسٹرکچر کے منصوبے ان مسائل میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی جادوئی چھڑی سے توقع وابستہ کرنے کے بجائے حقیقی معاشی اصلاحات کی جائیں۔

دہشت گردی کو ختم کر کے صوبوں سے ایف سی اور رینجرز کو واپس بلایا جائے، نیب کی وچ ہنٹنگ کو روکا جائے، امرا کو دی جانے والی 17 ارب ڈالرز سے زیادہ کی سالانہ سبسڈی بند کی جائے، دفاع، خارجہ اور خزانے کے علاوہ وفاقی حکومت کے سارے محکمے بند کر کے اربوں روپیہ بچایا جائے۔

حقیقی استحکام جادوئی چھڑی سے نہیں بلکہ آئین پر عمل داری اور سویلین حکومت کی بالادستی سے آئے گا۔ لہٰذا آئین پر عمل کیا جائے اور منتخب حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے۔ یہی معاشی ترقی کا راستہ ہے اور یہی ملک کی حفاظت کا نسخہ۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر