مجوزہ ستائیسویں آئینی ترمیم نے پاکستان میں عدلیہ کے آئینی کردار، خودمختاری اور ساخت کے حوالے سے تبدیلیوں پر سینیئر وکلا کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے بھی تحفظات سامنے آئے ہیں۔
عدالت عظمٰی کے کئی ججوں نے چیف جسٹس کو سوموار کو خطوط لکھتے ہوئے اس معاملے پر فُل کورٹ اور جوڈیشل کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن آج اس فہرست میں جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل ہوگئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خط میں چیف جسٹس سے جوڈیشل کانفرنس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ’ہمارا حلف تقاضا کرتا ہے کہ ہم عدلیہ پر عوام کے اعتماد کا دفاع کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ اکثر طاقتور کے ساتھ کھڑی رہی، عوام کے ساتھ نہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی عدلیہ کا ناقابل معافی جرم تھا۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کارروائیاں بھی ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
’بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ ہونے والا سلوک اسی جبر کے تسلسل کا حصہ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ نیشنل عوامی پارٹی کو اسی عدالت کے ذریعے کالعدم قرار دیا گیا لیکن ہم سب ان حالات میں خاموش ہی رہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خط میں کہا کہ ’جو جج سچ بولتا ہے، وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے، اور جو نہیں جھکتا، اس کے خلاف احتساب کا ہتھیار استعمال ہوتا ہے۔ بیرونی مداخلت اب ایک روز نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے۔‘
رواں ماہ وفاقی حکومت نے ستائیسویں آئینی ترمیم متعارف کرائی جس میں عدلیہ اور فوج کے ڈھانچے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان سے لفظ پاکستان حذف کر کے ایک الگ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز اس میں شامل ہے جبکہ ججز کے تبادلوں سے متعلق بھی اصول وضع کیے گئے ہیں۔ سینیٹ سے ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیر کو منظور ہو چکا ہے اور اب قومی اسمبلی سے پاس ہونا باقی ہے۔
آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی: جسٹس منصور علی شاہ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک اور سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے پیر کو چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک اہم خط لکھا جس میں ستائیسویں آئینی ترمیم پر سنگین آئینی اور ادارہ جاتی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے بطور سربراہ عدلیہ چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر ایگزیکٹو سے رابطہ کریں اور واضح کریں کہ آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ’آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بلایا جائے تاکہ عدلیہ اجتماعی طور پر اپنا مؤقف واضح کر سکے۔‘
خط میں جسٹس منصور علی شاہ کا موقف تھا کہ ’ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت ایک علیحدہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور سپریم کورٹ کو صرف اپیلٹ باڈی تک محدود کرنے کی تجویز، عدلیہ کے ڈھانچے میں یکطرفہ مداخلت ہے۔ عدلیہ کے ڈھانچے میں تبدیلی ایگزیکٹو یا مقننہ کی جانب سے یکطرفہ طور پر نہیں کی جا سکتی۔‘
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جب تک 26ویں آئینی ترمیم پر سوالات باقی ہیں، نئی آئینی ترمیم آئینی اور اخلاقی طور پر درست نہیں۔
سینیئر وکلا کی جانب سے ستائیسویں آئین ترمیم پر تخفظات
ملک کے ممتاز اور سینیئر وکلاء نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک مشترکہ خط لکھا ہے، جس میں مجوزہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے اثرات کا فل کورٹ کے ذریعے جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کی جانب سے تحریر کیے گئے اس خط پر متعدد ممتاز قانونی شخصیات کے دستخط موجود ہیں، جن میں جسٹس (ر) مشیر عالم، مخدوم علی خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، جسٹس (ر) ندیم اختر، اکرم شیخ، انور منصور، علی احمد کرد، خواجہ احمد حسین اور صلاح الدین احمد شامل ہیں۔
وکلا نے خط میں کہا ہے کہ ’ہم غیر معمولی حالات میں یہ خط لکھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ اپنے قیام کے بعد آج سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ کوئی سول یا فوجی حکومت کبھی سپریم کورٹ کو اپنا ماتحت ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اگر یہ پہلی ایسی کوشش ہے تو سپریم کورٹ کا ردِعمل دینا اس کا آئینی و اخلاقی حق ہے۔‘