سینیٹ میں27 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور

پاکستان کی سینیٹ میں ملکی آئین میں اہم تبدیلیوں کا باعث بننے والی 27ویں ترمیم دو تہائی کی اکثریت سے منظور کر لی گئی۔

پاکستان کی سینیٹ میں پیر کو ملکی آئین میں اہم تبدیلیوں کا باعث بننے والی 27ویں ترمیم دو تہائی سے منظور کر لی گئی۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آج جب ووٹنگ کے لیے آئینی ترمیم کا بل ایوانِ بالا میں پیش کیا تو حزب اختلاف نے شور شرابے کے بعد اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔

بعد ازاں سپیکر سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے بل کی تمام شقوں پر ووٹنگ کروائی، جس کے بعد ضابطے کے مطابق سینیٹ کے دروازے بند کر کے ڈویژن کے ذریعے ووٹنگ کرائی گئی۔

27ویں ترمیم کے حق میں 64 ووٹ آئے اور یوں ترمیم دو تہائی کی اکثریت سے منظور ہو گئی۔

آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ سینیٹ میں 96 ارکان میں سے حکومتی اتحاد کے پاس 65 ووٹ ہیں۔

ان میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 26، مسلم لیگ (ن) کے 20، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار، متحدہ قومی موومنٹ کے تین، عوامی نیشنل پارٹی کے تین، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کا ایک، ایک ووٹ، جبکہ سات آزاد ارکان کے ووٹ شامل ہیں۔

ان ووٹوں میں سے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی بھی شامل ہیں جو اپنے منصب کے باعث ووٹ نہیں ڈال سکتے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی علالت کے باعث ووٹنگ میں شرکت نہیں ہو سکے۔

ترمیم کے حق میں حکومت کو دو ووٹ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر احمد خان کی صورت میں ملے۔

ابڑو ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سینیٹ سے مستعفی ہو گئے۔

سینیٹ سے منظوری کے بعد اب اس بل پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہوگی، جس کا اجلاس آج ہی متوقع ہے۔

336 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے، جہاں اس کے 233 ارکان ہیں، جبکہ اپوزیشن کے پاس 103 نشستیں ہیں۔

حکومتی اتحاد میں مسلم لیگ (ن) کی 125، پیپلز پارٹی کی 74، ایم کیو ایم پاکستان کی 22، مسلم لیگ (ق) کی پانچ، استحکامِ پاکستان پارٹی کی چار، جبکہ مسلم لیگ (ض)، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پیپلز پارٹی کی ایک ایک نشست شامل ہے۔

سینیٹر فیصل ووڈا نے سینیٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پراعتماد انداز میں کہا کہ ترمیم قومی اسمبلی سے بھی انتہائی آسان سے پاس ہو جائے گی۔


ترمیم سے کیا تبدیلیاں آئیں گی؟

سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے پاس ہونے کی صورت میں نئی تشکیل پانے والی وفاقی آئینی عدالت آئین کی تشریح اور آئینی معاملات سے متعلق مقدمات کی سماعت کرے گی اور اس عدالت کا مستقل صدر مقام اسلام آباد میں ہو گا۔

موجودہ سپریم کورٹ صرف شہری اور کاروباری معاملات سے متعلق فیصلوں کی آخری عدالت بن جائے گی۔

ترمیم کے مطابق، صدرِ مملکت کو اختیار ہو گا کہ وہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش اور طے کردہ شرائط و ضوابط کے تحت کسی ایک ہائی کورٹ کے جج کو دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکیں۔

اس مقصد کے لیے دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس بھی جوڈیشل کمیشن کے ارکان ہوں گے۔

ترمیم میں یہ بھی شامل ہے کہ صدر مملکت وزیر اعظم کی مشاورت سے آرمی چیف کو بیک وقت چیف آف ڈیفنس فورسز کے طور پر بھی مقرر کریں گے۔

وزیر قانون نے وضاحت کی کہ ایئر چیف اور نیول چیف کی تقرری بھی وزیر اعظم کے مشورے پر عمل میں لائی جائے گی۔

ترمیم کے تحت 27 نومبر، 2025 سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا۔

وزیر اعظم، چیف آف آرمی سٹاف جو بیک وقت چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے، کی سفارش پر نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کے کمانڈر کا تقرر پاکستان آرمی کے افسران میں سے کریں گے اور ان کی تنخواہ و مراعات کا تعین بھی وزیر اعظم کریں گے۔

ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت کسی مسلح افواج کے رکن کو فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ کے عہدے پر ترقی دیتی ہے تو وہ افسر تاحیات یہ رتبہ، مراعات اور وردی برقرار رکھے گا۔

مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد وفاقی حکومت قانون کے تحت ایسے عہدے دار کے فرائض و ذمہ داریاں ریاست کے مفاد میں متعین کرے گی۔

آئینی ترمیم کے مطابق صدر مملکت کے خلاف ان کی زندگی بھر اور گورنر کے خلاف ان کے عہدے کے دوران کسی بھی عدالت میں فوجداری کارروائی نہ شروع کی جا سکے گی اور نہ ہی جاری رکھی جا سکے گی۔

البتہ یہ استثنا اس مدت کے لیے لاگو نہیں ہوگا جب صدر مملکت اپنے منصب سے سبکدوش ہونے کے بعد کوئی عوامی عہدہ سنبھالیں۔


’آئینی ترمیم عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے‘

وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے اس موقعے پر ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کروانے پر سینیٹرز کو مبارک باد دی اور کہا کہ ترمیم کے ذریعے تشکیل پانے والی وفاقی آئینی عدالت کا خیال میثاق جموہریت کا حصہ تھا۔

’میثاق جمہوریت پر تمام جماعتیں آن بورڈ تھیں، آئینی عدالت کی تشکیل اہم معاملہ تھا، 23 سال سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ توازن ہونا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ملکوں میں آئینی عدالت موجود ہے اور آئینی ترمیم عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ہے۔

سینیٹ میں قائد ایوان اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس اور ایڈمرل آف دی فلیٹ کے عہدوں کو باضابطہ طور پر آئینی حیثیت مل گئی ہے۔


بل میں تبدیلیوں کی رپورٹ سینیٹ میں پیش

اس سے قبل قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے منظور شدہ بل کے مسودے پر ایک رپورٹ ایوان میں جمع کرائی گئی۔

مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اور ایوان میں رپورٹ جمع کرانے والے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے مطابق ’بل کے اندر کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔‘

سینیٹر نائیک نے کہا ’آئینی عدالت میں تمام صوبوں کی یکساں نمائندگی ہو گی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا بھی نمائندہ ہو گا۔

’ہائی کورٹ کے جج کا تجربہ پانچ سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی ہو گی تو سینیارٹی تبدیل نہیں ہو گی۔‘

سینیٹ میں پیش کیے گئے بل میں کمیٹی نے ایک اور تبدیلی کی سفارش کی کہ سپیکر جوڈیشل کمیشن کے لیے ممبر منتخب کریں گے وہ عورت یا غیر مسلم یا ٹیکنوکریٹ کو کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ازخود پاور کو ختم کیا گیا تھا لیکن کمیٹی نے سوموٹو پاور کو رکھا ہے جب کوئی درخواست دے گا اور آئینی عدالت سمجھے گی کہ یہ ضرورت ہے تو سماعت ہو گی۔

’کمیٹی نے یہ شق ڈالی کہ ایک سال میں کیس کا فیصلہ نہ ہوا تو سٹے ختم ہو جائے گا۔‘

انہوں نے کہا ’ججز کی ٹرانسفر سے متعلق ترمیم بھی تجویز کی گئی۔ ٹرانسفر کا طریقہ تبدیل کر کے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہو گی۔ جوڈیشل کمیشن شرائط کے تحت ٹرانسفر ہو گی۔

’اگر کوئی جج انکار کرتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس فائل ہو گا تاکہ وہ انکار کی وجوہات بتا سکے۔ اگر وہ جائز وجوہات نہ بتا سکے تو ریٹائر تصور ہو گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’صدر کو تاحیات استثنیٰ دینے کی شق میں ترمیم کی گئی۔ اگر وہ پبلک آفس ہولڈر بنتے ہیں تو استثنیٰ نہیں ہو گا۔ پبلک آفس ختم ہونے کے بعد استثنیٰ دوبارہ حاصل ہو گا۔‘


حکومت اور پیپلز پارٹی میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں: عطا تارڑ

اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم پر حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان کوئی ڈیڈ لاک نہیں اور سینیٹ میں حکومت کو درکار ووٹ پورے ہیں۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 27 ویں ترمیم کا کمیٹی سے منظور شدہ بل پر سینیٹ میں بحث ہو گی۔

قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے اتوار کو 27ویں آئینی ترمیم کے بنیادی مسودے کی منظوری دے دی، جس کی رپورٹ پیر کو سینیٹ میں پیش کی جا چکی ہے۔ 

27ویں ترمیم کا مقصد ایک نئے آئینی عدالت کا قیام اور اعلیٰ عدلیہ اور فوجی قیادت کی تقرریوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کرنا ہے۔

چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تمام نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ ترامیم میں کچھ تبدیلیاں کرنی تھی وہ بھی کر لی ہیں۔‘

 تارڑ سے پیر کو پارلیمنٹ میں جب صحافیوں نے پوچھا کہ ’سننے میں آیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ڈیڈ لاک چل رہا ہے‘ تو انہوں کہا ’کسی قسم کا کوئی ڈیڈ لاک نہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی آپ کے سامنے ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا سینیٹ سے ترامیم پاس ہو جائیں گی؟ عطا تارڑ نے سوالیہ انداز میں برجستہ جواب دیا کہ ’آپ کو کوئی شک ہے؟‘

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کی علالت کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت کے پاس 27 ویں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے ووٹ پورے ہیں تو انہوں نے جواب دیا ’ہمارے پاس ووٹ پورے ہیں۔‘

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ترمیم سے متعلق کوئی ابہام نہیں اور اس کا مسودہ پوری دنیا میں موجود بہترین پریکٹسز کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق توقع ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیمی بل 2025 کا مسودہ بحث کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

اتوار کو چیئرمین مشترکہ کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے نو گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بنیادی مسودے کی منظوری کا اعلان کیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اور اتحادی جماعتوں کی کچھ تجاویز پر حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا کا نام تبدیل کرنے کی تجویز مسترد کر دی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ دو ترامیم پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وہ خود حتمی فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔

اس موقعے پر تارڑ نے بتایا کہ کمیٹی کی منظور شدہ تجاویز کی رپورٹ کل سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے این پی سینیٹر ہدایت اللہ خان نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ خیبرپختونخوا سے ’خیبر‘ ہٹانے کی تجویز دی گئی ہے کیونکہ خیبر صرف ان کا ضلع ہے اور صوبے کے ساتھ نام نہیں ہونا چاہیے۔

ایم کیو ایم نے لوکل گورنمنٹ اختیارات بڑھانے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے صوبائی نشستیں بڑھانے کی تجویز دی تھی۔

پی ٹی آئی، جماعتِ علمائے اسلام ف اور مجلس وحدت المسلمین کے قانون سازوں نے آج بھی پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ جاری رکھا۔

تاہم تارڑ، وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک، ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار اور دیگر اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔

اجلاس میں سینیٹر خلیل طاہر سندھو، اے این پی کے ہدایت اللہ خان اور پی پی پی کے ایم این ایز قاسم گیلانی اور سید ابرار علی شاہ بھی اجلاس میں موجود تھے۔ ن لیگ کی شمیلا رانا نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔

تحریک تحفظ آئین پاکستان نے، جس میں پی ٹی آئی بھی شامل ہے، 27ویں ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ آئین میں اس ’انتہائی خطرناک اور تاریک‘ تبدیلی کے خلاف موقف اختیار کریں۔

پی ٹی آئی کے پارلیمانی رہنما بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بل پر بحث اس لیے نامناسب تھی کیونکہ اپوزیشن لیڈر کا نوٹیفائی شدہ فرد موجود نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت و اتحادی ترمیمات منظور کرنے میں جلدی کر رہے ہیں۔

تاہم دونوں جماعتوں نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ 27ویں ترمیم کا مسودہ بغیر مناسب بحث کے منظور کیا گیا اور کہا کہ بل کو وسیع پیمانے پر جانچ پڑتال کے بعد پیش کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست