حکومت نے آئین پاکستان میں 27ویں ترمیم کے لیے بل ہفتے کو سینیٹ میں پیش کر دیا جس میں فوجی قیادت کی تقرری، سپریم کورٹ کے اختیارات، وزیراعظم کے استثنیٰ اور ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے قیام سمیت کئی اہم تجاویز ہیں۔
بل کے مسودے، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، کے مطابق ’جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ کا عہدہ رواں برس 27 نومبر سے ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اسی طرح ’کمانڈر، نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ‘ کا ایک نیا عہدہ بنائے جانے کی تجویز ہے، جس کا تقرر وزیراعظم کی جانب سے چیف آف ڈیفنس فورسز یا آرمی چیف کی سفارش پر کیا جائے گا جبکہ چیف آف ڈیفنس فورسز پاکستان فوج سے ہوں گے۔
مسودے کے مطابق حکومت افسران کو ’فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ‘ کے عہدے پر ترقی دینے کا اختیار رکھتی ہے۔
یہ افسران زندگی بھر اپنے عہدے، مراعات اور وردی کو برقرار رکھیں گے اور انہیں آرٹیکل 47 کے طریقہ کار کے تحت ہی ہٹایا جا سکتا ہے، جو صدر کے مواخذے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ انہیں صدر کی طرح آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، جس کے تحت ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
ترمیمی بل کا دوسرا بڑا حصہ عدلیہ سے متعلق ہے جس میں ایک الگ ’وفاقی آئینی عدالت‘ کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ الگ عدالت آئینی تنازعات، وفاق اور صوبوں کے اختلافات، بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات اور آئین کی تشریح جیسے معاملات کی سماعت کرے گی۔
عدالت کا مستقل صدر مقام اسلام آباد ہو گا، ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال جبکہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال ہو گی جو عمر پوری ہونے سے پہلے ہی مکمل ہو سکتی ہے۔
مجوزہ ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے اختیارات میں سب سے بڑی تبدیلی آئین کے آرٹیکل 184 کی منسوخی ہے، جس کے ذریعے سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
اس اختیار کو وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو بنیادی حقوق یا آئینی نوعیت کے مقدمات میں خود کارروائی کر سکے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آرٹیکل 185 میں بھی ترمیم کر کے سپریم کورٹ کے دائرۂ اختیار کو اپیلوں تک محدود کیا گیا ہے۔
ترمیم میں عدالتی تقرریوں اور ضابطہ اخلاق کے نظام میں بھی تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔
جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹسز شامل ہوں گے، جو چیف جسٹس سینیارٹی میں برتر ہوں گے وہ کمیشن یا کونسل کے چیئرمین کے طور پر فرائض انجام دیں گے۔
ترمیم میں یہ بھی درج ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس اور ججوں کی تقرری صدرِ مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے، تاہم یہ شق صرف ابتدائی تقرریوں تک محدود ہو گی۔
ججز کے تبادلے کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے جبکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا۔
ٹرانسفر ہونے والا جج دوسری عدالت کے چیف جسٹس سے سینیئر نہیں ہو گا، ٹرانسفر سے انکار پر جج کو ریٹائر کر دیا جائے گا، ریٹائرمنٹ کی صورت میں مقررہ مدت تک کی پنشن اور مراعات دی جائیں گی۔
اس کے علاوہ 27 ویں آئنی ترمیم کے مسودے کے مطابق آرٹیکل 93 میں ترمیم کے ذریعے وفاقی مشیروں کی تعداد پانچ سے بڑھا کر سات کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آرٹیکل 130 کے تحت صوبائی کابینہ کے ارکان کی تعداد 17 اور وزرائے مملکت کی حد 13 کی گئی ہے۔
ایک اہم شق صدر پاکستان اور گورنروں کو حاصل استثنیٰ سے متعلق ہے۔ یعنی آرٹیکل 248 میں ترمیم کے بعد صدر کو تاحیات فوجداری استثنیٰ ہو گا۔ اسی طرح گورنروں کو یہ استثنیٰ ان کے عہدے کی مدت کے دوران حاصل ہو گا۔