نئی آئینی ترمیم: مسلح افواج کے سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل ہوں گے؟

مختلف حلقوں میں یہ بحث کی جا رہی ہے کہ کیا فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئین میں شامل کرنے کے بعد صدر کے اختیارات کم ہو جائیں گے؟

پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اب مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس مجوزہ ترمیم میں آرٹیکل 243 کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئین میں شامل کیا جانا ہے لیکن کیا اس ترمیم کے بعد فیلڈ مارشل مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہوں گے؟

اس وقت مسلح افواج کے سپریم کمانڈر صدر پاکستان ہیں۔ بری، بحری اور فضائیہ میں اعلیٰ فوجی تعیناتی فور سٹار افسران کی ہے جو اپنے اپنے ادارے کے چیف ہیں، لیکن آپریشن بنیان المرصوص کے بعد حکومت پاکستان نے آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے کر پانچ ستارے لگا دیے ہیں۔ جس کے بعد وہ تکنیکی طور پر نیوی، ایئر فورس کے فور سٹار افسران سے بھی سینیئر ہیں۔

مختلف حلقوں میں یہ بحث کی جا رہی ہے کہ کیا فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئین میں شامل کرنے کے بعد صدر کے اختیارات کم ہو جائیں گے؟  اور کیا فیلڈ مارشل بطور سینیئر ترین فوجی افسر افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہوں گے؟

مجوزہ 27 آئینی ترمیم کا معاملہ اس وقت منظرعام پر آیا جب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر انکشاف کیا کہ ’وزیراعظم نے پیپلز پارٹی سے27ویں آئینی ترمیم میں حمایت کی درخواست کی ہے۔ جس میں این ایف سی میں صوبائی حصے کا تحفظ ختم کرنا، آرٹیکل 243 میں ترمیم، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی وفاق میں واپسی کی ترمیم بھی شامل ہیں۔‘

اس حوالے سے منگل کو سینیٹ میں بھی بات ہوئی جہاں نائب وزیر اعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ’میں نے بلاول بھٹو کی ٹویٹ دیکھی ہے۔ وہ سیاست دان ہیں اور ایک سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں، انہیں ٹویٹ کرنے کا حق ہے۔‘

اسحاق ڈار نے کہا کہ ’انہوں نے (بلاول بھٹو) جن چیزوں پر بات کی ہے وہ انہوں نے ہوا میں نہیں کی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان چیزوں پر بات ہوئی ہے۔‘

ساتھ اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ ’بہتر ہو گا کہ ہم پہلے اس مجوزہ ترمیم کو اس ایوان (سینیٹ) میں لائیں کیونکہ سب کو پتا ہے کہ قومی اسمبلی میں زیادہ نمبر گیم ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم کوشش کریں گے اسے جتنا جلد ہو سکے اس ایوان میں لے آئیں۔‘

آئین کا آرٹیکل 243 کیا کہتا ہے؟

آرٹیکل 243 افواج پاکستان کی کمان سے متعلق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو مسلح افواج پر مکمل کمان اور کنٹرول حاصل ہو گا جبکہ صدر پاکستان مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہوں گے۔

آرٹیکل 243 شق نمبر1: وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہو گا۔

شق دوم: دی گئی شق کے عموم پر حرف لائے بغیر، مسلح افواج کی اعلیٰ ترین کمان صدرِ مملکت میں متعین ہو گی۔

شق تین: صدر پاکستان کو اختیار ہو گا کہ وہ تینوں مسلح افواج کے معاملات کو مینٹین کریں، کمیشن دیں، وزیراعظم کے مشورے پر چیئرمین جوائنٹ چیفس اور مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی کریں اور ان کی تنخواہ و مراعات کا تعین کریں۔‘

بیرسٹر عقیل نے جیو ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ ’آئین میں فیلڈ مارشل کی تعیناتی سے متعلق خاموشی ہے جو وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر پاکستان نے کی ہے۔ آرٹیکل 243 میں ترمیم فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی تخفظ دینا ہے۔‘

مسلح افواج کی سپریم کمان تبدیل ہونے کے کیا امکانات ہیں؟

سینیئر عدالتی صحافی ناصر اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتفو کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تک مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ سامنے نہیں آیا اور نہ کسی نے دیکھا ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے جن ترامیم کا ذکر کیا ہے اس سے گمان کیا رہا ہے کہ آرٹیکل 243 کے ذریعے سپریم کمان کی تبدیلی ہو سکتی ہے۔

’چونکہ یہ آرٹیکل ہے ہی افواج پاکستان کی کمان سے متعلق اور فیلڈ مارشل اس وقت تینوں مسلح افواج کے سربراہان کے اعلیٰ ترین فوجی افسر ہیں، جبکہ آرٹیکل 243 کی شق تین جو مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی سے متعلق ہے اس میں مدت ملازمت کو آئینی تخفظ حاصل ہونے کا بھی امکان ہے۔‘

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ ’جو یہ سمجھا جا رہا ہے کہ آرٹیکل 243 میں ترمیم کے بعد فوج وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں رہے گی تو ایسا نہیں ہے۔‘

فیصل چوہدری کے مطابق ’ماتحت تو وہ (فوج) وفاق کے ہی رہے گی۔ امریکہ میں بھی ایسا نظام ہے، فیلڈ مارشل کے ماتحت باقی مسلح افواج بھی ہوں گی۔ ایسی صورت میں چیئرمین جوائنٹ چیفس کا عہدہ ختم ہو سکتا ہے، لیکن ابھی مزید خدوخال سامنے آئیں گے تو واضح ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق صدر سپریم کورٹ میاں رؤف عطا نے کہا کہ ’ابھی تو 27ویں آئینی ترمیم کی بات ہو رہی ہے۔ چونکہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا عہدہ تو دیا گیا لیکن اسے قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا، جس کی وجہ سے ترمیم کی ضرورت پڑی اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ سپریم کمان تو ابھی صدر کے پاس ہے میرا خیال ہے کہ وہ انہی کے پاس رہے گی۔‘

تاہم دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ کی بدلتی نوعیت اور دفاعی ڈھانچے میں جدت کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلیاں موجودہ دفاعی ڈھانچے پر ازسرِنو غور کی متقاضی ہیں۔

پاکستان کی مسلح افواج کا ڈھانچہ، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 243 میں درج ہے، لیکن وہ مختلف دور کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا گیا تھا۔ یہ فریم ورک بنیادی طور پر روایتی جنگ اور الگ الگ سروسز کی حدود کے تناظر میں وضع کیا گیا تھا۔

تاہم جدید جنگ کے تقاضے اس سے کہیں زیادہ انضمام اور ہم آہنگی کے متقاضی ہیں۔ لہٰذا ایک متوازن ادارہ جاتی جائزہ ضروری ہے تاکہ مسلح افواج کو موجودہ خطرات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ یہ نظرِثانی آئینی کمانڈ اور کنٹرول کے مؤثر اطلاق کی اصلاح ہے۔

این ایف سی ایوارڈ اور صوبائی اختیارات کی کمی؟

بلاول بھٹو زرداری کے مطابق مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں این ایف سی (ایوارڈ) میں صوبائی حصے کا تحفظ ختم کرنا، جبکہ تعلیم اور آبادی منصوبہ بندی کا اختیار وفاق کے پاس واپسی بھی زیر غور ہے۔

معلومات کے مطابق 18ویں ترمیم کے تحت صحت اور تعلیم کے اختیارات صوبوں کو تفویض کیے گئے تھے، جس میں سے اب ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم اور ایک جیسا نصاب لانے کے لیے تعلیم کا شعبہ واپس وفاق کے پاس جانے کی ترمیم کی جائے گی۔ جبکہ این ایف سی ایوارڈ یعنی قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ، وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کا آئینی فارمولہ فراہم کرتا ہے۔

ہر بجٹ کے بعد صوبوں کی طرف سے بالخصوص سندھ اور خیبرپختونخوا، کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں اضافہ کیا جائے، جس کا مطلب ہے کہ صوبے کو جو حصہ دیا جاتا ہے اس کی شرح بڑھائی جائے۔

موجودہ فارمولے کے تحت گرانٹس اور سبسڈیز ملا کر صوبوں کا مجموعی حصہ تقریباً 62 فیصد بنتا ہے۔ جبکہ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت اس وقت 57.5 مل رہا ہے۔

حاصل معلومات کے مطابق اس وقت ملک میں ساتواں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ نافذ ہے، جو مالی سال 11-2010 میں عمل میں آیا تھا۔

یہ ایوارڈ بنیادی طور پر پانچ سال، یعنی 2014-15 تک کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم، آٹھواں، نواں اور دسواں این ایف سی کمیشن نیا ایوارڈ طے کرنے میں اتفاقِ رائے پیدا نہ کر سکے۔

یوں، ساتواں این ایف سی ایوارڈ گذشتہ 15 برسوں سے بدستور نافذ العمل ہے اور اس وقت وفاق و صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم اسی کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔

این ایف سی ایوارڈ میں کمی سے صوبوں کی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے؟ تعلیم کا شعبہ وفاق کے ماتحت ہونے اور یکساں تعلیمی نصاب پر کیا کہیں گے؟

اس سوال کے جواب میں سینیئر قانون دان فیصل چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’18ویں آئینی ترمیم کو بیلنس کرنا اچھا عمل ہے لیکن صوبوں کو صوبائی مالی کمیشن کے بغیر کرنا زیادتی ہے۔

’کیونکہ صوبوں تک تو پیسے چلے جاتے ہیں لیکن ضلعوں تک پیسے نہیں جاتے اور یہی کرپشن کی بڑی وجہ ہے۔ وزرائے اعلیٰ اپنی مرضی کے مطابق فنڈز کی تقسیم کرتے ہیں۔ لہذا اسی لیے ترامیم کی ضرورت تو ہے۔‘

فیصل چوہدری کہتے ہیں کہ ’آرٹیکل 156 جو پہلے سے موجود ہے اس کے مطابق صوبائی فنانس کمیشن کر دیں۔ این ایف ایس ایوارڈ کے تحت تعلیم کا انتظامی اختیار تو صوبوں کے پاس رہے گا لیکن نصاب یکساں ہونا اچھی بات ہے۔‘

کیا 27ویں ترمیم وقت کی ضرورت ہے؟

چھبیسویں آئینی ترمیم کے کیس کے فیصلے کے بغیر 27 آئینی ترمیم کا آنا اپوزیشن جماعتوں کے لیے ایک نیا آئینی چیلنج ہے لیکن کیا سال بعد ہی نئی آئینی ترمیم وقت کی ضرورت ہے؟

اس معاملے پر سینیئر وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ’دونوں جماعتوں (ن لیگ اور پیپلز پارٹی) نے اپنے منشور میں یہ نہیں لکھا کہ وہ آئین میں ترامیم کریں گے۔ آئین میں ترمیم کے لیے مینڈیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئینی تبدیلی پر ملک کا مستقبل منحصر ہوتا ہے۔

’اس لیے اگر سب سیاسی جماعتیں اس کی حمایت نہیں کریں تو 27ویں آئینی ترمیم سے عدم استحکام آئے گا۔ خفیہ رکھ کر یہ ترامیم کی جا رہی ہیں جو کہ قابل اعتراض بات ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس اور ججز کے تبادلے بھی شامل ہیں۔‘

سابق صدر سپریم کورٹ بار میاں رؤف عطا نے کہا کہ ’ہمارا تو پہلے سے مطالبہ تھا کہ آئینی بینچ کے بجائے وفاقی آئینی عدالت تشکیل دی جائے۔ اس سے پہلے موجود عدالتوں کا بوجھ کم ہو گا۔‘

ترامیم کا مسودہ سامنے آئے گا تو یہ ابہام ختم ہوں گے لیکن لگتا یہی ہے کہ قانونی و آئینی بحث ترامیم منظور ہونے تک جاری رہیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان