حکومت کی 27ویں آئینی ترمیم پر اتحادیوں سے مشاورت کی تصدیق

مسلم لیگ کی حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک نئے آئینی ترمیمی مسودے پر بات چیت کر رہی ہے، جس میں آئینی عدالت کے قیام اور تعلیم و آبادی کی منصوبہ بندی میں وفاق کے کردار پر نظرثانی کی تجاویز شامل ہیں۔

نو اگست، 2025 کو وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد میں سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات کے دوران گفتگو کر رہے ہیں (ہینڈ آؤٹ/وزیر اعظم آفس)

پاکستان کے وزیر مملکت برائے قانون عقیل ملک نے پیر کو تصدیق کی کہ حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک نئے آئینی ترمیمی مسودے پر بات چیت کر رہی ہے، جس میں ایک آئینی عدالت کے قیام اور تعلیم و آبادی کی منصوبہ بندی میں وفاق کے کردار پر نظرِ ثانی کی تجاویز شامل ہیں۔

پاکستان میں آئینی ترامیم کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور ماضی میں ان کا استعمال اکثر مقننہ، عدلیہ اور صوبوں کے درمیان طاقت کے توازن کی ازسرِنو وضاحت کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ 

مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم، اکتوبر 2024 میں منظور کی گئی 26ویں ترمیم کے بعد پیش کی جا رہی ہے، جس کی اپوزیشن جماعتوں اور وکلا برادری نے سخت مخالفت کی تھی۔ 

26ویں ترمیم کے تحت پارلیمان کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور آئینی مقدمات سننے کے لیے سینیئر ججوں پر مشتمل ایک نیا پینل تشکیل دیا گیا تھا۔ 

یہ ایسے اقدامات ہیں جنہیں ناقدین نے عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔

1973 میں منظور ہونے والے پاکستان کے آئین میں اب تک دو درجن سے زائد مرتبہ ترمیم ہو چکی ہے۔

پیر کو ایکس (X) پر جاری بیان میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ان کی جماعت سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں تعاون کی درخواست کی ہے۔ 

ان کے مطابق تجاویز میں آئینی عدالتوں کا قیام، ایگزیکٹیو مجسٹریٹس کی بحالی، آرٹیکل 243 (جو مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول کی تعریف کرتا ہے) میں ترمیم، این ایف سی میں صوبوں کے حصے کے تحفظ کا خاتمہ اور تعلیم و آبادی کی منصوبہ بندی کو دوبارہ وفاق کے ماتحت لانا شامل ہیں۔

PMLN delegation headed by PM @CMShehbaz called on @AAliZardari & myself. Requested PPPs support in passing 27th amendment. Proposal includes; setting up Constitutional court, executive magistrates, transfer of judges, removal of protection of provincial share in NFC, amending…

جب ایک نجی نیوز چینل نے بلاول بھٹو زرداری کی پوسٹ سے متعلق سوال کیا تو عقیل ملک نے کہا ’وقت کے ساتھ ساتھ ایسی بات چیت ہوتی رہتی ہے اور جہاں کہیں قانون یا آئین میں بہتری کی ضرورت ہو، وہاں کام کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا قانون کی وزارت فی الحال 27ویں ترمیم کا مسودہ تیار نہیں کر رہی، تاہم آئینی عدالتوں کے قیام کو انہوں نے 26ویں ترمیم کا ایک ’نامکمل ایجنڈا‘ قرار دیا جس پر اب پیش رفت ضروری ہے۔

ملک نے انتظامیہ کو مجسٹریٹ اختیارات دینے کی تجویز کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے معمولی جرائم اور قیمتوں کے کنٹرول سے متعلق مقدمات میں عدلیہ کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔

وزیرِ مملکت نے یہ بھی تصدیق کی کہ حکومت تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کو وفاق کے ماتحت لانے سے متعلق پیپلز پارٹی سے مشاورت کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا ’میرا خیال ہے کہ آبادی سے متعلق ہمیں ایک قومی اور ہم آہنگ پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ ہر سال آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اسے وفاقی سطح پر سنبھالنے کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں صوبوں کے درمیان تعلیم کے معیار اور نصاب میں ہم آہنگی کی کمی ہے، جس سے وفاق کے مضبوط کردار کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔

آرٹیکل 243 کے حوالے سے ملک نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے حال ہی میں آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کا معاملہ ’آئینی ڈھانچے کے اندر حل ہونا چاہیے۔‘

مئی 2025 میں انڈیا کے ساتھ ایک لڑائی کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی، جس کے ساتھ وہ پاکستان کی تاریخ میں اس عہدے پر فائز ہونے والے دوسرے افسر بن گئے۔ 

نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی ایوارڈ) سے متعلق وزیر مملکت نے کہا کہ حکومت صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کے فارمولے پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

این ایف سی وفاقی محصولات کی صوبوں میں تقسیم کا طریقہ طے کرتی ہیں۔یہ خاص طور پر حساس موضوع ہے کیونکہ یہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے اور صوبائی خودمختاری کی بنیاد ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کی مرکزی عاملہ کمیٹی چھ نومبر کو 27ویں آئینی ترمیم کی تجاویز پر اپنا موقف طے کرنے کے لیے اجلاس کرے گی۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو یہ پاکستان کے نظام حکومت میں بڑی تبدیلی لا سکتی ہے — خاص طور پر ججوں کی تقرری اور صوبائی مالی وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار میں — جو ملک کی حکمرانی اور سیاسی استحکام کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست