مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم ایکٹ کے ذریعے 1973 کے آئین میں 40 سے زیادہ ترامیم تجویز کی گئی ہیں، جن پر وفاقی حکومت اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ترمیمی بل کو ووٹنگ کے ذریعے منظور کرا کر ایکٹ بنایا جا سکے۔
ان ترامیم میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی کے علاوہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام بھی شامل ہے۔
کن آرٹیکلز میں کیا تبدیلیاں کی جا رہی ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے موصول شدہ مسودے کی کاپی کی اٹارنی جنرل آف پاکستان سے تصدیق کروائی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اس وقت مسودہ تو موجود نہیں لیکن انہوں نے جو مسودہ دیکھا تھا یہ ایک جیسا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 48 میں پہلے صدر کو کابینہ یا وزیراعظم، وزار اور وزار مملکت کی جانب سے بھجوائی جانے والے مشورے پر کوئی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی انکوائری نہیں کرتی سکتی تھی لیکن اب نئی ترمیم میں اس میں وزار اور وزار مملکت کو نکال دیا گیا ہے اور صرف وزیر اعظم، کابینہ تک محدود کر دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 63 اے میں مجوزہ ترمیم کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن کا ووٹ شمار کیا جائے گا۔
آرٹیکل 78 میں مجوزہ ترمیم کرتے ہوئے بل میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔ آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر قومی اسمبلی کی کمیٹی کی سفارشات پر کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی آئینی عدالت کے تین سینیئر ترین ججوں میں سے ایک کو نامزد کرے گی۔ کمیٹی کے نامزد کردہ جج کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے لیکن آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے۔
آئینی عدالت کے پہلی مرتبہ ججز کا تقرر صدر مملکت آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے۔ آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے قومی اسمبلی کی کمیٹی آٹھ اراکین پر مشتمل ہو گی۔
ججز کی تعیناتی سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں مجوزہ ترمیم کے تحت ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا۔
سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر کے لیے کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرری کے لیے کمیشن میں آئینی عدالت کے بجائے سپریم کورٹ کے پانچ جج شامل ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی قومی اسمبلی کی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے لیے تین سینیئر ترین ججوں میں سے ایک کو کمیٹی نامزد کرے گی۔ کمیٹی کی جانب سے نام وزیراعظم کو بھجوایا جائے گا جن کی ایڈوائس پر صدر مملکت تقرری کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئینی عدالت کے ججوں کے تقرری کے لیے وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ کمیشن میں آئینی عدالت کے دو سینیئر ترین جج، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔ کمیشن میں وزیر قانون، اٹارنی جنرل سینیئر ایڈوکیٹ اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے دو دو اراکین بھی شامل ہوں گے۔ وفاقی آئینی عدالت میں چاروں صوبوں کے ججز کی مساوی نمائندگی ہو گی۔
آرٹیکل 17 میں ترامیم کے تحت اب چیف جسٹس آف پاکستان کے بجائے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا لفظ استعمال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھنے والے کو سپریم کورٹ یا آئینی عدالت کا جج مقرر نہیں کیا جا سکے گا۔
دستاویز کے مطابق آئینی تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ آئینی عدالت کے ججز 68 سال کی عمر میں ریٹائر ہوں گے۔ آئینی عدالت میں سپریم کورٹ سے آنے والے جج کی مدت تین سال ہو گی۔ سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے چیف جسٹسز کی مدت ملازمت تین سال ہو گی۔
آرٹیکل 111 میں ترامیم کے تحت ایڈوکیٹ جنرل کی بجائے ایڈوائزر کے ٹائٹل کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ بل میں ہائی کورٹس سے سوو موٹو لینے کا اختیار واپس لینے اور ہائی کورٹ ججز کی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔
بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی بڑھانے کی تجاویز بھی ترامیم میں شامل ہیں۔