الجزیرہ کے انس الشریف کا قتل، سچ پر حملہ

انس الشریف اب کوئی اور خبر رپورٹ نہیں کر سکیں گے، لیکن ان کا حوصلہ اور الفاظ باقی ہیں۔

انس الشریف کے قتل کی خبر نے مجھے ایسے جھٹکا دیا جیسے کسی نے جسمانی طور پر مارا ہو۔ 

الجزیرہ کے صحافی انس میری روزمرہ کی ملاقات رکھنے والے دوست نہیں — ہم نے کبھی ایک ساتھ کافی نہیں پی، نہ ہی غزہ کی گلیوں میں ساتھ چلے، لیکن وہ میرے ہمسائے تھے۔ وہ وہیں پیدا ہوئے جہاں میں پیدا ہوا تھا: جبالیہ پناہ گزین کیمپ۔

ان کا خاندانی مکان ان ہی بھری ہوئی تنگ گلیوں میں واقع تھا جہاں میں پلا بڑھا، انہی دیواروں کے بیچ جو کئی دہائیوں کی بے دخلی اور جنگ کے نشانات سے داغ دار ہو چکی تھیں۔

پچھلے 674 دنوں میں میں نے انہیں ہر روز دیکھا — روبرو نہیں، بلکہ اپنی سکرین پر۔ جب باقی دنیا نے نظر پھیر لی، انس اب بھی وہیں موجود تھے، میرے شہر کے قلب میں رپورٹنگ کرتے ہوئے، ان سڑکوں سے جہاں آج بھی میرا خاندان رہتا ہے۔ 

ایسے وقت میں جب کوئی اور شمالی غزہ میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتا تھا، وہ ملبے سے گزرتے ہوئے، کیمرے میں بولتے ہوئے، صرف خبریں ہی نہیں بلکہ اپنے مکان کے ٹکڑے بھی پہنچا رہے تھے۔

جب اسرائیل نے غزہ کو تاریکی میں دھکیل دیا، رابطے کاٹ دیے اور لوگوں کو بیرونی دنیا سے جدا کر دیا، انس کی آواز آکسیجن کی طرح اس خاموشی کو چیرتی ہوئی پہنچتی تھی۔

ان کی رپورٹوں کے ذریعے میں اپنے پہچانے ہوئے محلے دیکھ سکتا تھا، مانوس آوازیں سن سکتا تھا اور اس جگہ کی دھڑکن محسوس کر سکتا تھا جہاں سے میں جلا وطن ہوں لیکن جسے اپنے دل سے جدا نہیں کر سکتا۔

وہ صرف صحافی نہیں تھے — وہ وہ ڈوری تھے جو مجھے میرے لوگوں سے ان کے سب سے برے وقت میں جوڑتی تھی اور یہی انہیں نشانہ بنانے کی وجہ بنی۔

اسرائیلی فوج نے انس کو کئی بار دھمکیاں دیں۔ انہیں کہا گیا کہ شمال سے رپورٹنگ بند کریں۔ بتایا گیا کہ ان کی جان خطرے میں ہے۔ 

وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس کا مطلب کیا ہے — غزہ میں ایسی دھمکیاں کبھی کھوکھلی نہیں ہوتیں۔

پھر بھی وہ رکے نہیں۔ انہوں نے خاموش ہونے سے انکار کیا۔ اس کے برعکس، انہوں نے اپنی محنت اور بڑھا دی، ہر بمباری، ہر تباہ شدہ گھر اور ملبے سے نکالے گئے ہر بے جان بچے کو دستاویزی شکل میں محفوظ کیا۔

 وہ خوب سمجھتے تھے کہ اسرائیل صرف زندگیاں مٹانا نہیں چاہتا — بلکہ ان زندگیوں کے ریکارڈ کو بھی مٹانا چاہتا ہے۔ 

اسی لیے اس نے غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا، اور یوں انس جیسے فلسطینی صحافیوں کو یہ مکمل اور جان لیوا بوجھ اکیلے اٹھانا پڑا تاکہ وہ دنیا کو بتائیں کہ کیا ہو رہا ہے۔

حتیٰ کہ اسرائیل نے ان پر حماس کا رکن ہونے کا الزام بھی لگایا — ایک ایسا الزام جو جتنا مضحکہ خیز تھا اتنا ہی متوقع بھی — حالانکہ انس نے پچھلے 23 ماہ کا بیشتر وقت کیمرے کے سامنے گزارا، براہِ راست رپورٹنگ کرتے ہوئے اور ان کی جگہ ہمیشہ معلوم رہتی تھی۔

 میں اکثر صرف ان کی سوشل میڈیا اور الجزیرہ نشریات دیکھ کر جان لیتا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔

سوال یہ ہے: اسرائیل نے انہیں اب کیوں قتل کیا؟ کیا اس لیے کہ غزہ میں جو کچھ ہونے والا ہے وہ ماضی سے بھی زیادہ تاریک ہے، جیسا کہ حالیہ اعلان میں کہا گیا کہ غزہ سٹی پر حملہ کیا جائے گا اور 10 لاکھ سے زائد لوگوں کو بے دخل کیا جائے گا؟

انس نے تو بین الاقوامی برادری سے کھل کر درخواست کی تھی کہ صحافیوں کو تحفظ دیا جائے تاکہ وہ اسرائیلی جنگی جرائم کو بے نقاب کرتے رہیں۔ 

وہ کسی خاص رعایت کے طلب گار نہیں تھے۔ وہ صرف یہ بنیادی حق چاہتے تھے کہ اپنا کام قتل ہونے کے خوف کے بغیر کر سکیں۔ لیکن یہ اپیل بھی، غزہ سے آنے والی بے شمار اپیلوں کی طرح، سنی اَن سنی کر دی گئی۔

10 اگست، 2025 کو ایک اسرائیلی فضائی حملے نے الشفا ہسپتال کے باہر ایک خیمے کو نشانہ بنایا، جہاں انس اور ان کے ساتھی غزہ میں قحط اور بھوک کی صورت حال کی کوریج کر رہے تھے۔ 

اس حملے میں انس سمیت پانچ دیگر صحافی — محمد قریقیہ، ابراہیم ظاہر، محمد نوفل، مؤمن علیوہ، اور محمد الخالدی مارے گئے۔یہ صرف افراد پر حملہ نہیں تھا، یہ سچائی پر حملہ تھا۔

انس کا قتل ایک نہ رکنے والے سلسلے کا حصہ ہے۔ اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں 230 سے زائد صحافی مارے جا چکے ہیں — جو جدید تاریخ میں صحافیوں کے لیے سب سے مہلک تنازع ہے۔ 

ان میں بڑی اکثریت فلسطینی رپورٹرز، کیمرہ مین اور میڈیا ورکرز کی تھی، جو بیرونی دنیا کے لیے آخری باقی ماندہ آنکھیں اور کان تھے۔

لیکن نشانہ صرف صحافی نہیں بنے۔ اسرائیل نے 400 سے زائد امدادی کارکن بھی مار دیے، جن میں اقوام متحدہ کے اہلکار اور فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے رضاکار شامل تھے۔ 

اس نے واضح طور پر نشان زدہ ایمبولینسوں اور قافلوں کو بمباری کا نشانہ بنایا۔ 700 سے زائد ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈک جان کھو چکے ہیں۔ 

ہسپتال اور کلینک تباہ یا غیر فعال کر دیے گئے ہیں۔ یہ سب ’حادثاتی نقصان‘ نہیں — بلکہ زندگی بچانے والے لوگوں اور ڈھانچے پر جان بوجھ کر حملے ہیں۔

اور اب تک کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ نہ انس کے لیے۔ نہ رفح میں قتل کیے گئے طبی عملے کے لیے۔ نہ اجتماعی قبروں میں دفن کیے گئے امدادی کارکنوں کے لیے۔ 

دنیا بیانات جاری کرتی ہے لیکن بیانات بم نہیں روکتے۔ الفاظ بغیر عمل کے صرف شور ہیں اور غزہ میں شور پہلے ہی بہرا کر دینے والا ہے۔

میرے لیے یہ نقصان انتہائی ذاتی ہے۔ انس اور میں نے ایک ہی گلیوں میں بچپن گزارا، ایک ہی کیمپ، زندہ رہنے کی وہی ضدی خواہش۔ 

میں برسوں سے جلا وطن ہوں لیکن ان کی رپورٹنگ کے ذریعے میں اب بھی غزہ سے قریب محسوس کرتا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب بھی وہ لائیو آتے، میں جانتا تھا کہ میں کسی ایسے شخص کو دیکھ رہا ہوں جو صرف اپنی ڈیوٹی نہیں کر رہا بلکہ ایک پوری قوم کی آواز بننے کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔

وہ یہ مناظر ایک باہر سے جھانکنے والے کی طرح نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ اسی بھیانک خواب کو جیتے ہوئے فلم بند کرتے تھے جن کے بارے میں وہ رپورٹنگ کر رہے تھے۔

انہوں نے دنیا کو دکھایا کہ مائیں اپنے بچوں کے لیے ملبہ کھود رہی ہیں۔ باپ سفید کپڑے میں لپٹی چھوٹی لاشیں اٹھائے ہوئے ہیں۔ 

بچے ملبے میں کھانا تلاش کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ سب بلا جھجک، حقیقت چھپائے بغیر اور کسی کو نظر پھیرنے کا موقع دیے بغیر دکھایا۔

انہوں نے اسی لیے انہیں قتل کیا اور اسی لیے ہمیں انہیں یاد رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی ایوارڈ، کوئی اعزاز، کوئی پہچان دینے کے قابل ہے تو وہ غزہ کے فلسطینی صحافیوں کا حق ہے۔ 

انہوں نے سچائی کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جانیں داؤ پر لگائیں — اور قربان کر دیں۔ ان کا کام مسلسل بمباری کے دوران، بغیر حفاظتی سامان، بغیر محفوظ راستوں اور اکثر اپنی ہی فیملی کو کھونے کے ساتھ ساتھ جاری رہا۔

انس الشریف اب کوئی اور خبر رپورٹ نہیں کریں گے، لیکن ان کا حوصلہ باقی ہے۔ ان کے الفاظ باقی ہیں اور ان کی مثال ایک پکار بن کر باقی رہنی چاہیے، صرف آزادیِ صحافت کے لیے نہیں، بلکہ انصاف کے لیے۔

کیونکہ صحافیوں کا قتل صرف پریس کے خلاف جرم نہیں۔ یہ خود تاریخ کے خلاف بھی جرم ہے۔ یہ اس کوشش کا حصہ ہے کہ ایک دن یہ کہا جا سکے کہ غزہ میں جو کچھ ہوا وہ کبھی ہوا ہی نہیں۔

ہم یہ ہونے نہیں دے سکتے۔ انس کے لیے۔ ہر اس صحافی، امدادی کارکن اور طبی اہلکار کے لیے جو مارے گئے۔ ان لوگوں کے لیے جو اب بھی غزہ میں محصور ہو کر جی رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔

احمد نجار ایک فلسطینی ماہر معاشیات اور تبصرہ نگار ہیں، جو غزہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت لندن میں مقیم ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ