اقوام متحدہ، صحافتی تنظیموں کی الجزیرہ صحافیوں کے قتل کی مذمت

اقوام متحدہ، پاکستان اور دیگر عالمی صحافتی تنظیموں نے غزہ کے اندر اسرائیلی حملے میں الجزیرہ کے پانچ صحافیوں کے قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ 

اقوام متحدہ اور پاکستان سمیت دیگر عالمی صحافتی تنظیموں نے غزہ پراسرائیلی حملے میں چھ صحافیوں کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کی مذمت کی ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیلی فورسز نے میڈیا ورکرز کو نشانہ بنایا ہو، ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ 

پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ اور سیکریٹری جنرل ارشد انصاری نے کہا ’اسرائیلی حکومت کا احتساب سے بچ نکلنے کا رویہ اس کی فورسز کو معصوم شہریوں، بشمول ان صحافیوں کو نشانہ بنانے کی جرات دیتا ہے جو تنازعات والے علاقوں میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔‘

پی ایف یو جے کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں میں 186 سے زائد صحافی اور میڈیا ورکرز جان سے جا چکے ہیں۔

یونین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری نوٹس لے اور تل ابیب پر دباؤ ڈالے تاکہ شہریوں اور میڈیا کے پیشہ ور افراد کو نشانہ بنانا بند کیا جائے۔

بیان میں مزید کہا گیا ’اگر عالمی برادری نے صحافیوں کے قتل اور میڈیا دفاتر پر بمباری کے واقعات پر پہلے ہی کارروائی کی ہوتی تو ایسے سانحات روکے جا سکتے تھے۔‘

پی ایف یو جے نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی صحافتی برادری ان تمام صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے جو زمین پر موجود رہ کر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔

’بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے اپنے ایک بیان میں اس واقعے کو ’بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، وولکر ترک کے دفتر نے ایکس پر کہا کہ اسرائیلی فوج نے ایک ایسے خیمے کو نشانہ بنایا جس میں قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے پانچ ارکان موجود تھے۔

اتوار کو کیے گئے اس حملے میں ایک فری لانس صحافی بھی قتل ہوا، جسے اسرائیل نے تسلیم کیا کہ یہ ایک منصوبے کے مطابق کی گئی کارروائی تھی۔

ترک کے دفتر نے مزید کہا کہ ’اسرائیل کو تمام شہریوں، بشمول صحافیوں کا احترام اور ان کا تحفظ کرنا چاہیے‘ اور یہ بھی کہ اکتوبر 2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد شروع ہونے والی لڑائی سے اب تک غزہ میں کم از کم 242 فلسطینی صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ہم تمام صحافیوں کے لیے غزہ میں فوری، محفوظ اور بلا رکاوٹ رسائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

’صحافیوں کو نشانہ بنانا جنگی جرم‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل آسٹریلیا نے غزہ شہر میں الشفا ہسپتال کے قریب ایک خیمے پر اسرائیل کے ٹارگٹڈ حملے میں الجزیرہ کے صحافیوں کی قتل پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیلی افواج کا صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور قتل کرنا بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت جنگی جرم ہے۔‘

ادارے نے اپنے بیان میں کہا ’الجزیرہ کے صحافیوں کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہیں، جن میں انس الشریف بھی شامل تھے۔

’دیگر صحافی، انس محمد قریقع اور ویڈیو جرنلسٹ ابراہیم زاہر، محمد نوفل، اور مومن علیوا کو اسرائیلی افواج نے جان بوجھ کر قتل کیا اور اس کی عوامی طور پر ذمہ داری قبول کی ہے۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل میں ہم سب غمگین اور دل شکستہ ہیں۔ صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی اس سنگدلی پر ہمارے دکھ کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔

’انس نے اپنی زندگی کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مظالم کو بے نقاب کرنے اور سچائی کو دستاویزی شکل دینے کے لیے وقف کر دی تاکہ دنیا اس کی گواہ بن سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادارے نے مزید کہا ’2024 میں انس الشریف کو ان کی غیر معمولی لچک، بہادری، اور انتہائی خطرناک حالات میں کام کرتے ہوئے صحافت کی آزادی کے لیے ان کی لگن کے اعتراف میں ایمنسٹی انٹرنیشنل آسٹریلیا کا انسانی حقوق کا محافظ ایوارڈ دیا گیا تھا۔

’یہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے، الشریف نے اسے ہر اس فلسطینی صحافی کے نام کیا جو غزہ پٹی پر جاری لڑائی اور محاصرے کے دوران اسرائیلی قبضے کے واقعات اور جرائم کو کوریج دے رہا تھا۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے، الشریف نے اسے ہر اس فلسطینی صحافی کے نام کیا جو غزہ پٹی پر جاری جنگ اور محاصرے کے دوران اسرائیلی قبضے کے واقعات اور جرائم کو کوریج دے رہے تھے۔‘

مذمتی بیان میں کہا گیا کہ ’اسرائیل صرف صحافیوں کو قتل نہیں کر رہا بلکہ نسل کشی کی دستاویزی فلم بنانے کو روک کر خود صحافت پر حملہ کر رہا ہے۔‘

’کسی بھی صحافی کو صرف اس لیے نشانہ بنا کر ہلاک نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنا کام کر رہا ہے۔ اسرائیل کو صحافیوں پر جان بوجھ کر حملے کرنے اور انہیں بے خوفی سے قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ان بہادر صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے انصاف ضرور ہونا چاہیے۔‘

پی ایف یو جے کے سابق سیکریٹری جنرل مظہر عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ’اسرائیل اور کئی دیگر طاقتیں آزاد میڈیا اور الجزیرہ جیسے نیٹ ورکس سے خوف زدہ ہیں کیونکہ یہ زمینی حقائق دنیا کے سامنے رکھتے ہیں اور کسی بھی تنازع یا جنگ میں صحافیوں کی موجودگی اسی لیے ضروری ہوتی ہے، کیونکہ وہ سچ کو دنیا تک پہنچاتے ہیں۔

’یہ واقعہ نہایت قابلِ مذمت ہے، اس لیے بھی زیادہ مذمت کے لائق ہے کہ یہ ایک ٹارگٹڈ کلنگ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’غزہ کے تنازع میں جس طرح صحافیوں کو، خاص طور پر عرب صحافیوں کو، نشانہ بنا کر مارا جا رہا ہے، اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی اور یہ واقعہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے۔

’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق، اس تنازع کے آغاز سے اب تک صرف پچھلے ڈیڑھ سال میں تقریباً 189 صحافی مارے جا چکے ہیں۔

’یہ ایک بڑا انسانی المیہ ہے، خاص طور پر صحافیوں کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

’حال ہی میں اے ایف پی نے اپنے نمائندوں کے حوالے سے تفصیل بیان کی کہ ان کے صحافی کئی دن سے بھوکے ہیں اور کچھ نے کہا ہے کہ وہ اب مزید رپورٹنگ کے قابل نہیں رہے۔‘

مظہر عباس نے مزید کہا کہ ’دنیا بھر کی صحافتی تنظیموں کو نہ صرف اس واقعے کی شدید مذمت کرنی چاہیے بلکہ ایک مشترکہ لائحہ عمل، مثلاً Global Action Day، ترتیب دینا چاہیے تاکہ یہ مسئلہ نظرانداز نہ ہو سکے۔‘

بین الاقوامی میڈیا واچ ڈاگ فریڈم نیٹ ورک نے کہا ’غزہ شہر میں اسرائیلی فضائی حملے میں الجزیرہ کے پانچ صحافی، جن میں معروف صحافی انس الشریف بھی شامل تھے، قتل ہو گئے ہیں۔ یہ حملہ الشفا ہسپتال کے قریب میڈیا کے ایک خیمے پر کیا گیا۔

‘یہ حملہ ایک اور جنگی جرم ہے جو اسرائیلی افواج غزہ میں صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہی ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 186 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے کم از کم 178 فلسطینی تھے۔

لاہور پریس کلب نے کہا ’انسانی بنیادی حقوق کے لیے لکھنے اور آواز اٹھانے والے صحافیوں کو غزہ میں نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ دنیا کو سچ تک رسائی سے روکا جا سکے۔

’عالمی برادری اور اقوام متحدہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان صحافیوں کی بھی حفاظت کریں جو اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ جنگی جرم میں ملوث اسرائیلی حکومت کو کٹہرے میں لایا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا