اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے اتوار کو کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ وہ غزہ میں اپنا نیا آپریشن ’بہت جلدی‘ مکمل کر لیں گے۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطینی علاقے میں لوگوں کی مشکلات کے خاتمے کے لیے نئے مطالبات سنے۔
جمعے کو اپنی سکیورٹی کابینہ کی جانب سے غزہ شہر کا کنٹرول سنبھالنے کے منصوبے کی منظوری پر شدید تنقید کے بعد نتن یاہو نے کہا کہ ان کے پاس اس ’کام کو مکمل کرنے‘ اور حماس کو شکست دے کر اسرائیل سے قیدی بنائے گئے افراد کو آزاد کروانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں نئے آپریشن کا مقصد حماس کے باقی ماندہ دو مضبوط گڑھوں کو ختم کرنا ہے اور یہ ان کے پاس واحد راستہ ہے کیوں کہ فلسطینی تنظیم ہتھیار ڈالنے سے انکار کر رہی ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ آپریشن کب شروع ہو گا، جو اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ شہر سے حماس کو نکال باہر کرنے کی پے در پے کوششوں میں سے ایک تازہ کوشش ہو گی۔
اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا: ’ہم نے اس کارروائی کے لیے جو وقت مقرر کیا وہ بہت جلدی ہے۔ ہم سب سے پہلے محفوظ علاقوں کا قیام ممکن بنانا چاہتے ہیں تاکہ غزہ کی شہری آبادی وہاں سے نکل سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ دو سالہ جنگ ختم ہونے سے پہلے 10 لاکھ لوگوں کے اس شہر کی آبادی کو ’محفوظ علاقوں‘ میں منتقل کیا جائے گا۔
تاہم فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ان علاقوں نے انہیں اسرائیلی فائرنگ سے نہیں بچایا۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ نے پورے غزہ پر قبضہ کرنے کی مخالفت کی اور خبردار کیا ہے کہ آپریشن کو بڑھانے سے حماس کے زیر حراست قیدیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور اس کی فوج طویل اور خونریز چھاپہ مار جنگ میں الجھ سکتی ہے۔
وزیراعظم نتن یاہو نے کہا کہ ان کا مقصد غزہ پر قبضہ کرنا نہیں۔ ’ہم اپنی سرحد کے بالکل ساتھ ایک سکیورٹی بیلٹ چاہتے ہیں لیکن ہم غزہ میں رہنا نہیں چاہتے۔ یہ ہمارا مقصد نہیں۔‘
ادھر یورپی نمائندوں نے اقوام متحدہ میں کہا کہ غزہ میں قحط بڑھ رہا ہے اور اسرائیل کا منصوبہ حالات کو مزید خراب کر دے گا۔
ڈنمارک، فرانس، یونان، سلووینیا اور برطانیہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا: ’فوجی آپریشنز کو بڑھانے سے غزہ میں تمام شہریوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی، جن میں باقی ماندہ قیدی بھی شامل ہیں اور اس کے نتیجے میں مزید غیر ضروری تکالیف ہوں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ انسانی ہاتھوں کا پیدا کردہ بحران ہے اور اس لیے بھوک کو روکنے اور غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔‘
بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے امداد کو محدود کرنے کے ایک دانستہ منصوبے کی وجہ سے علاقے میں غذائی قلت بڑے پیمانے پر پھیل چکی ہے۔ اسرائیل اس الزام کو مسترد کرتا ہے اور فلسطینیوں میں بھوک کے لیے حماس کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ امداد تقسیم کی جا چکی ہے۔
سلامتی کونسل میں امریکی نمائندے نے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کا دفاع کیا اور کہا کہ واشنگٹن انسانی ہمدردی کی ضروریات کو پورا کرنے، قیدیوں کو آزاد کروانے اور امن کے حصول کے لیے پرعزم ہے۔
غذائی قلت
غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹے کے دوران غذائی قلت اور بھوک سے مزید پانچ افراد، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں، جان سے چلے گئے، جس کے بعد بھوک سے ہونے والی اموات کی مجموعی تعداد 217 ہو گئی ہے، جن میں 100 بچے شامل ہیں۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ حکومت کے میڈیا دفتر نے کہا ہے کہ اب تک جنگ میں امداد کی فضائی ترسیل کی وجہ سے مزید 23 افراد جان سے جا چکے ہیں۔
مختلف ممالک نے سڑک کے ذریعے امداد پہنچانے میں مشکلات کی وجہ سے امداد کی فضائی ترسیل شروع کی۔
طبی عملے اور روئٹرز کی تصدیق شدہ ویڈیو کے مطابق تازہ ترین واقعے میں مرکزی غزہ میں خیموں کے ایک کیمپ میں دیگر بے گھر فلسطینیوں کے ساتھ خوراک کا انتظار کرنے والا 14 سالہ لڑکا امداد کے پیراشوٹ کے ذریعے گرائے جانے والے ڈبے کی زد میں آ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
میڈیا آفس نے اپنے بیان میں کہا: ’ہم ان غیر انسانی طریقوں کے خطرات سے بارہا خبردار کر چکے ہیں اور مستقل طور پر زمینی گزرگاہوں کے ذریعے امداد کی محفوظ اور کافی ترسیل کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، خصوصاً خوراک، بچوں کے دودھ، ادویات اور طبی سامان کی فراہمی کے لیے۔‘