غزہ کے لیے یاہو کا منصوبہ ان کے خاتمے کا آغاز

کیا نتن یاہو کا غزہ کی پٹی کو ’غیر مسلح‘ کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کا غیر ذمہ دارانہ فیصلہ، جس میں شدید لڑائی کا نیا دور شامل ہے، کسی سخت اور طویل ردعمل کا باعث بن سکتا ہے؟

آٹھ اگست 2025 کو غزہ شہر کے جنوبی الزیتون محلے پر اسرائیلی حملے کے دوران دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے (بشار طالب / اے ایف پی)

گذشتہ رات میں نے اپنے تل ابیب میں واقع اپارٹمنٹ سے، جہاں سے ہوسٹیجز سکوائر دکھائی دیتا ہے جہاں اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین جمع ہوتے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو دیکھا، جن کے فوری جنگ بندی کے مطالبات اب ایک مستقل منظر بن چکے ہیں۔

جب یہ خبر پھیلی کہ نتن یاہو غزہ شہر پر قبضہ کرنے اور جنگ کو مزید بڑھانے کا منصوبہ بنا رہا ہیں تو شور میں اضافہ ہوگیا۔

میرا کتا جو جو آدھی کورگی اور آدھی جیک رسل نسل کا ہے بضد تھا کہ ہم نیچے جائیں۔

یہ وہ بڑی عوامی ریلی نہیں تھی جس کی توقع کی جا سکتی تھی، بلکہ زیادہ تر تھکے ہوئے اسرائیلی عوام کی کمزور توانائی کا اظہار تھا لیکن وہاں غصے اور عزم کا نمایاں امتزاج موجود تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کسی کام کے آغاز کی علامت ہو۔

کیا نتن یاہو کا غزہ کی پٹی کو ’غیر مسلح‘ کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کا غیر ذمہ دارانہ فیصلہ، جس میں شدید لڑائی کا نیا دور شامل ہے، کسی سخت اور طویل ردعمل کا باعث بن سکتا ہے؟ کیا یہی وہ بات ہو سکتی ہے جو بالآخر انہیں اقتدار سے باہر کر دے؟

اگر ایسا ہوا تو یہ ایک طویل عرصے سے وجود میں آتا انجام ہوگا۔ پہلے سات اکتوبر 2023 کا حماس کا دہشت گرد حملہ، جو بلا شبہ اسرائیل کی تاریخ کا بدترین سانحہ اور سب سے سیاہ دن تھا۔ پھر انتہائی ذلت، مایوسی اور خوف کے عالم میں پتہ چلا کہ 200 زائد یرغمالی غزہ کی سرنگوں میں قید ہیں۔

اس کے فوراً بعد نتن یاہو نے ہٹ دھرمی اور اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کی ذمہ داری لینے اور اس کے لیے جواب دہ ہونے سے انکار کردیا کہ ان نگرانی اور بڑی حد تک ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا۔

اس کے بعد انہوں غصے میں وزیر دفاع کو برطرف کر دیا شن بیت سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ کو تلخ انداز میں ہٹا دیا، مختلف حیلے بہانے سے بار بار جنگ کو طول دیا، جنگ کا دائرہ لبنان، شام اور ایران تک پھیلا دیا اور اب اٹارنی جنرل کو عہدے سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان تمام معاملات نے جاری قومی بحران کا تاثر پیدا کیا۔ پھر بھی ان میں سے کوئی بات بھی 10 لاکھ لوگوں کو سڑکوں پر نہیں لا سکی۔

سوال یہ ہے کہ اسرائیلی عوام اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟ یہ تمام حالات کب مل کر اس اہم عوامی قوت کی شکل اختیار کریں گے جو کہے: بس اب بہت ہو گیا، یہ نہیں ہو گا، یہ ہمارے نام پر نہیں ہو گا؟

اگر آپ تل ابیب میں گذشتہ رات جہاں میں تھا، مظاہرین سے پوچھتے تو جواب ملتا ’اب‘۔ لیکن اگر آپ نے اردگرد دیکھا ہوتا تو وہاں ہزاروں لوگ تھے، لاکھوں نہیں – اور یہ ہرگز کافی نہیں۔

غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کا کوئی بھی ’مارچ آف فولی‘ طرز کا فیصلہ عوام قبول یا برداشت نہیں کرے گی، خاص طور پر اگر اس میں یرغمالیوں کی قربانی دینا اور ایک ایسی جنگ میں جانی نقصان شامل ہو جو وقت کے ساتھ ساتھ کم اور کم معقول لگ رہی ہے۔ قیدیوں کے اہلِ خانہ اس کے مخالف ہیں اور فوجی ریزروسٹ نفرت میں سائن اپ کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔

لیکن اب ایک فیصلے کا امتزاج سامنے آیا کہ غزہ پر قبضہ کرکے جنگ کو غیر معینہ مدت تک بڑھایا جائے، اور اس کے ساتھ ایک بدنیتی پر مبنی، سیاسی اور اخلاقی طور پر کرپٹ فیصلہ کیا گیا کہ ہزاروں انتہائی قدامت پسند یہودیوں کو فوجی خدمت سے مستثنیٰ قرار دینے کا قانون بنایا جائے۔

سوال یہ ہے کہ اسرائیلی عوام اب کہاں کھڑے ہیں؟ کب یہ سب عوامل مل کر ایک بڑی عوامی آواز کو جنم دیں گے جو کہے گی کہ بس بہت ہو گیا یہ ہمارے نام پر نہیں چلے گا؟

اگر آپ تل ابیب میں گذشتہ رات جہاں میں تھا، مظاہرین سے پوچھتے تو جواب ملتا ’اب‘۔ لیکن اگر آپ نے اردگرد دیکھا ہوتا تو وہاں ہزاروں لوگ تھے، لاکھوں نہیں اور یہ ہرگز کافی نہیں۔

غزہ شہر پر مکمل فوجی قبضے کا کوئی بھی احمقانہ فیصلہ عوام قبول یا برداشت نہیں کریں گے۔ خاص طور پر اگر اس میں یرغمالیوں کی قربانی دینا اور ایک ایسی جنگ میں جانی نقصان شامل ہو جو وقت کے ساتھ ساتھ کم سے کم معقول لگ رہی ہے۔ قیدیوں کے اہل خانہ اس کے مخالف ہیں اور ریزور فوجی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس جنگ میں شامل ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔

نتن یاہو کے حالیہ اقدام نے ان لوگوں کو درست ثابت کیا جو رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اکثریت میں ہیں کہ اس جنگ کے کوئی واضح اور مربوط سیاسی مقاصد نہیں تھے۔ اس کے لیے فوجی وسائل کبھی سٹریٹیجک اہداف سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ جنگ کو سیاسی بقا کے لیے مصنوعی طور پر اور بلاوجہ طول دیا گیا۔ جسے عوام ایک درست جنگ سمجھتے تھے وہ  اسرائیل کو دنیا کی نظر میں تنہا کرنے اور اسے مجرم قرار دیے جانے کا سبب بن گئی۔

اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ وسیع تر عوامی احتجاج نہ ہونے کی حقیقت  کو جانچنے کے لیے اسرائیلی نفسیات کو سمجھا جائے۔ اکثریت نتن یاہو کو ناپسند کر سکتی ہے لیکن جنگ کے دوران احتجاج کرنے کا رجحان، ترغیب، محرک اور توانائی ہمیشہ نسبتاً کم رہی ہے کیوں کہ ایسا کرنا ’غیر اسرائیلی‘ عمل سمجھا جاتا ہے۔

جنگ کے حوالے سے عوامی رویے کی تشکیل میں کئی مراحل آئے۔ ابتدائی صدمہ نتن یاہو کے خلاف غصے اور برہمی میں بدل گیا۔ لیکن یہ کبھی بڑے پیمانے پر مظاہروں کی شکل اختیار نہ کر سکا، کیوں کہ اسرائیلی محب وطن ہیں، فوج عوامی ہے اور جب جنگ ہو تو احتجاج نہیں کیا جاتا۔

یہی سیاسی و ثقافتی طور پر فطری ردعمل ہے۔ واحد مستقل عنصر ان یرغمالیوں کی رہائی کے لیے احتجاج کرنے کا عزم اور تسلسل تھا، جو حماس کی قید میں ہیں، اور یہ تحریک یرغمالیوں کے مسقتبل کے حوالے سے نتن یاہو کی سنگدلانہ بے اعتنائی کے باعث مزید بڑھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سات اکتوبر 2023 برا دن تھا۔ اس حد تک کہ عوام صدمے سے مفلوج ہو گئے۔ اس ناقابل فراموش تباہی کے فوراً بعد نتن یاہو کے خلاف دشمنی، عداوت اور نفرت ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اکتوبر 2023 سے پہلے ایک سال تک نتن یاہو کی غیر آزاد آئینی بغاوت، عدلیہ اور ’گہری ریاستی اشرافیہ‘ کے خلاف کھلی جنگ کی مخالفت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔

سب سے پہلے، بدلہ لینے اور انتقام کی قدرتی خواہش پیدا ہوئی، جو بڑے پیمانے پر جوابی کارروائی کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ 2024 کے دوران اور 2025 کے پہلے نصف تک مسلسل ہونے والے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 70 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ نتن یاہو اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ 70 فیصد نے سوچا کہ انہیں مستعفی ہونا چاہیے اور 65 فیصد جلد انتخابات چاہتے تھے۔

جب نتن یاہو نے آئین سے بغاوت کرتے ہوئے جواب دہ ہونے سے انکار کر دیا اور ساری ذمہ داری فوج پر ڈالنے کی کوشش کی کہ ’اس نے مجھے ناکام بنایا۔‘ خفیہ ادارے جو حیرت زدہ تھے۔ ڈیپ سٹیٹ اشرافیہ جس نے ’اسرائیلی معاشرے کو کمزور کیا۔ (ان کے اپنے الفاظ) اور جب یہ زیادہ واضح ہوا کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے جنگ کو جاری رکھ رہے ہیں اور طول دے رہا ہیں تو عوام بے چین، غصے میں اور مایوس ہو گئے۔

اب حالات عوامی احتجاج کے لیے سازگار دکھائی دیتے ہیں۔ عوامی احتجاج میں یہ بات مزید آگ لگائے گی کہ اسرائیلی فوج غزہ پر قبضے کے اس جعلی منصوبے کی سخت مخالف ہے۔

آئندہ چند دن فیصلہ کن ہوں گے۔ اگر فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زمیر، اپنے تحفظات بیان کرتے رہے تو عوام شاید بیدار ہو جائیں۔ دوسری طرف، تھکن اور مایوسی کی طاقت کو کبھی کم نہ سمجھا جائے۔

ایلون پنکس امریکہ میں اسرائیل کے  قونصل جنرل اور دو سابق وزرائے اعظم، شمعون پیریز اور ایہود باراک کے سیاسی مشیر رہ چکے ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر