پاکستان کی قومی اسمبلی نے بدھ کو اسرائیلی حکام کی طرف سے غزہ پر طویل المدتی قبضے کے منصوبے کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی ہے۔
اسرائیلی حکام کی طرف سے حال ہی میں ایسے بیانات سامنے آئے کہ اسرائیل کی کابینہ غزہ پر مکمل فوجی قبضے کی منظوری دے سکتی ہے۔
معمول کی کارروائی روکتے ہوئے قومی اسمبلی میں بدھ اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے خلاف ایک مذمتی قرار داد منظور کی گئی۔
قومی اسمبلی سے منظور کی گئی قرارداد کے متن کے مطابق ایوان ’اسرائیلی حکام کے ان حالیہ بیانات اور اقدامات کی سخت مذمت کرتا ہے جن میں غزہ پر طویل المدتی قبضے، اس کے باشندوں کی جبری بے دخلی اور اس علاقے کی فلسطینی شناخت کو مٹانے کے عزائم ظاہر کیے گئے ہیں۔‘
قرارداد میں فلسطینی عوام اور ان کی آزادی، عزت اور انصاف کے لیے جاری جائز جدوجہد کے ساتھ پاکستان کی تاریخی اور غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔
’(ایوان) غزہ کی پٹی میں جاری اور بڑھتی ہوئی اسرائیلی فوجی جارحیت پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے، جس کے نتیجے میں شہریوں کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام، گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تباہی، اور ایک سنگین انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔‘
اسرائیل کی نئی حکمت عملی
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے منگل کو سینیئر سکیورٹی حکام سے ملاقات کی تاکہ غزہ کی پٹی میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے لیے نئی حکمت عملی کو حتمی شکل دی جا سکے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے بدھ کو جاری بیان میں بتایا کہ اس ملاقات میں ممکنہ آپشنز پر بات چیت ہوئی تھی جبکہ اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ نیتن یاہو اس اجلاس میں غزہ پر مکمل فوجی کنٹرول کے حق حامی تھے۔
روئٹرز کے مطابق یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بین الاقوامی برادری کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور محصور علاقے میں خوراک و بنیادی سہولیات کی شدید کمی کو دور کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاہم اسرائیل اور غزہ پر حکمرانی کرنے والی فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے ثالثی کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے ایک ’محدود سکیورٹی اجلاس‘ کی صدارت کی جو تین گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران فوج کے سربراہ ایال زامیر نے غزہ میں فوجی کارروائی جاری رکھنے کے مختلف امکانات پیش کیے۔
تاہم اسرائیل کے چینل 12 نے نتن یاہو کے دفتر کے ایک اہلکار کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم غزہ کی پوری پٹی پر کنٹرول سنبھالنے کے حق میں جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ 2005 میں کیے گئے اسرائیلی انخلا کے فیصلے کو پلٹنے کے مترادف ہو گا، جس کے تحت اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو غزہ سے نکال لیا گیا تھا۔
دائیں بازو کی جماعتیں اسی فیصلے کو حماس کے 2006 کے انتخابات میں اقتدار میں آنے کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔
لیکن رپورٹس میں یہ واضح نہیں ہو سکا کہ نتن یاہو کا ارادہ طویل مدتی قبضے کا ہے یا صرف ایک محدود آپریشن کا مقصد ہے، جس کے ذریعے حماس کو کمزور کرنا اور اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کروانا ہے۔
وزیراعظم کے دفتر نے چینل 12 کی رپورٹ پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کو مزید وسعت دینے کی ممکنہ خبروں کو ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا ہے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات پر کوئی رائے دینے سے گریز کیا کہ آیا امریکہ، جو اسرائیل کا قریبی فوجی اتحادی ہے، نتن یاہو کے منصوبے کی حمایت کرتا ہے یا نہیں۔
صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ہم اس وقت لوگوں کو خوراک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ باقی معاملات کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا، وہ زیادہ تر اسرائیل پر ہی منحصر ہے۔‘