’غزہ میں قحط اب حقیقت بن چکا ہے‘: غذائی قلت کا نگران ادارہ

اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ اس تنظیم نے کہا کہ ’غزہ میں قحط کی بدترین ممکنہ صورت حال اب حقیقت بن چکی ہے۔‘

جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح کے المواسی کیمپ میں لوگ کھانے کے پارسل اور تھیلے لے جا رہے ہیں، جنہیں 27 جولائی 2025 کو رفح راہداری پر تقسیم کیا گیا تھا(اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی منظور شدہ دنیا کی سب سے بڑی غذائی نگرانی کرنے والی تنظیم نے منگل کو خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ’بدترین ممکنہ صورت حال‘ یعنی قحط اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے اور اگر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں کو فوری اور بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی نہ دی گئی، تو اس تباہی کو روکا نہیں جا سکے گا۔

یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تقریباً دو سال سے جاری جنگ میں 60 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔

انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) دنیا بھر میں غذائی قلت اور قحط کی نگرانی کرنے والا ادارہ ہے۔

یہ اقوام متحدہ کے تحت چلنے والا ادارہ عالمی سطح پر قحط کی تعریف اور درجہ بندی کا پیمانہ فراہم کرتا ہے، جسے دنیا بھر میں غذائی بحران کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس نے کہا ہے کہ غزہ میں ہوائی ذریعے سے کی جانے والی امداد قحط کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔

اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ اس تنظیم نے کہا کہ ’غزہ میں قحط کی بدترین ممکنہ صورت حال اب حقیقت بن چکی ہے۔‘

اس کا کہنا تھا کہ ’فوری اور بلاتعطل انسانی امداد کی رسائی ہی بھوک اور اموات کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ وارننگ ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب امدادی ادارے کئی دنوں سے غزہ میں بھوک کی وجہ سے ہونے والی اموات پر خطرے کی نشان دہی کر رہے تھے۔

دو مارچ کو جب جنگ بندی مذاکرات ناکام ہو گئے تو اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر دی تھی۔

بعد ازاں مئی کے آخر میں محدود امداد کی اجازت دی گئی لیکن اس دوران بھی بھوک کے ایک بڑے بحران کی وارننگ دی جاتی رہی۔

آئی پی سی کے مطابق تازہ ترین اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’غزہ کی زیادہ تر پٹی میں قحط کی حدیں عبور ہو چکی ہیں۔

’چھوٹے بچوں میں بھوک سے اموات کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

’اپریل سے جولائی کے وسط تک 20 ہزار سے زائد بچوں کو شدید غذائی قلت کے علاج کے لیے داخل کیا گیا، جن میں سے تین ہزار سے زائد کی حالت نازک ہے۔‘

آئی پی سی کا کہنا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچے بھوک کے سبب جان سے جا رہے ہیں اور ’17 جولائی سے اب تک کم از کم 16 بچوں کی اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔‘

تنظیم نے مزید کہا ’بڑھتے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ قحط، غذائی قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ نے بھوک سے اموات میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔‘

فوری امداد کی اپیل

اقوام متحدہ سے منظور شدہ تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ ’زندگی بچانے والی امداد تک بلاتعطل رسائی ہی موت کے اس بڑھتے طوفان کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔‘

گذشتہ ہفتے اسرائیل نے غزہ کے کچھ حصوں میں فوجی کارروائیوں میں ’ٹیکٹیکل وقفے‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ 120 سے زائد امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔

کچھ ممالک نے غزہ میں ہوائی ذریعے سے خوراک گرائی جن میں اردن اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔

لیکن آئی پی سی نے خبردار کیا کہ ہوائی امداد نہ صرف عام شہریوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ ’یہ انسانی بحران کو پلٹنے کے لیے ناکافی ہے۔‘

ادارے کا کہنا ہے کہ سڑک کے راستے خوراک پہنچانا ’زیادہ مؤثر، محفوظ اور تیز تر ہے‘ اور ایسے کمزور افراد، خاص طور پر بچے، جو شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، ’انہیں مستقل اور فوری علاج تک رسائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحت یاب ہو سکیں۔‘

آئی پی سی نے واضح کیا کہ یہ الرٹ کوئی نیا قحط نہیں بلکہ ’25 جولائی تک کے تازہ ترین شواہد کی بنیاد پر جاری ایک ہنگامی وارننگ‘ ہے۔

ادارے نے کہا ہے کہ ایک نیا تجزیہ تیزی سے جاری ہے اور ’نئے اعداد و شمار جلد از جلد جاری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

مئی میں بھی آئی پی سی نے خبردار کیا تھا کہ ’غزہ میں قحط کا خطرہ موجود ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا