غزہ میں بھوک سے تڑپتے فلسطینیوں نے اس تباہ کن صورت حال کو بیان کیا ہے، جس میں انہیں امداد کے لیے موت کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے اور آٹے کے بدلے اپنا ذاتی سونا دینا پڑ رہا ہے۔
غزہ میں بھوک کی شدت گذشتہ کچھ دنوں میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ فلسطینی صحت حکام کے مطابق بھوک کی وجہ سے ہونے والی 111 اموات میں سے زیادہ حالیہ ہفتوں میں ہوئیں۔ مرنے والوں میں 80 بچے بھی شامل ہیں۔
اسرائیل نے غزہ میں خوراک اور امداد کے داخلے پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور قبل ازیں رواں سال 11 ہفتے کی مکمل ناکہ بندی کے بعد اب صرف چند ٹرک روزانہ امداد لے کر جا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں پہنچنے والی امداد ضرورت کے مقابلے میں سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق اسرائیلی فورسز نے سینکڑوں فلسطینیوں کو اس وقت قتل کیا جب وہ محدود تعداد میں آنے والے امدادی ٹرکوں سے خوراک لینے کے لیے دوڑے۔ اس واقعے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی جس میں اسرائیل کے کئی اتحادی بھی شامل ہیں۔
مغربی کنارے میں بھی حملے جاری ہیں جہاں فلسطینی صحت حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے دو فلسطینی لڑکوں 15 سالہ احمد الصلاح اور 17 سالہ محمد خالد علیان عیسیٰ کو قتل کر دیا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شاہراہ پر پیٹرول بم پھینک رہے تھے۔
بدھ کو انسانی حقوق کی 100 سے زیادہ تنظیموں اور فلاحی اداروں نے ایک خط میں مزید امداد کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران دی انڈپیینڈنٹ نے ان غزہ کے رہائشیوں سے بات کی جو بھوک کا شکار اپنے خاندانوں کو کچھ فراہم کرنے کی کوشش میں روزانہ تکلیف برداشت کرتے ہیں۔
غزہ شہر کے مکین 70 سالہ وجیہ النجار جو 13 افراد کے خاندان کے کفیل ہیں، نے کہا کہ ’ہم بھوک اور روزانہ کی اذیت میں جی رہے ہیں، کیوں کہ قیمتیں اس قدر ہوشربا بڑھ گئی ہیں کہ کوئی بھی غزہ کا شہری، چاہے ملازم ہو یا بے روزگار، اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ سب کچھ سمجھ سے باہر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’لوگ کچھ امداد کی تلاش میں موت کے منہ میں جانے پر مجبور ہیں۔‘ انہوں نے آٹے کی ’ہوشربا‘ قیمتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی قیمت 35 اسرائیلی شیکل (7.74 پاؤنڈ) فی کلو سے بڑھ کر 180 اسرائیلی شیکل (39.80 پاؤنڈ) فی کلو تک پہنچ گئی۔
نجار جن کا وزن 85 کلوگرام سے کم ہو کر 62 کلوگرام رہ گیا، کہتے ہیں کہ وہ اپنے لیے بھی پورا کھانا نہیں حاصل کر سکتے۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’تو پھر ان بچوں کا کیا ہوگا جنہیں دن میں تین مرتبہ سے زیادہ خوراک چاہیے؟‘
70 سالہ سالہ نجار نے یاد کیا کہ ان کے پوتے پوتیوں نے ان سے آٹا خریدنے کی درخواست کی، جو وہ خریدنے کے قابل نہیں تھے۔ انہوں نے گھر میں بچا ہوا روٹی کا حصہ سب میں تقسیم کر دیا، مگر وہ ان کی شدید بھوک مٹانے کے لیے کافی نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ ’ہم سب بھوکے ہیں اور اگر استطاعت ہو تو بمشکل ایک وقت کا کھانا ہی کھا پاتے ہیں۔ اب چینی کا ذکر بھی نہیں ہوتا، کیوں کہ اس کی قیمت تقریباً سو ڈالر فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سبزیاں اور پھل بھی انتہائی مہنگے ہو چکے ہیں۔ ’ہم سب سے غریب علاقے ہیں اور ہمارے پاس کھانے پینے کی دنیا کی سب سے مہنگی اشیا ہیں۔‘
نجار نے عالمی برادری سے اپیل کی ’ہم پوری دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر امداد لانے کے لیے اقدامات کرے تاکہ ہمارے بچے مر نہ جائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا قابض قوت پر دباؤ ڈالے کہ انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دی جائے جو خوراک ہم کھا رہے ہیں وہ ہمارے جسم کے لیے مناسب نہیں۔ ہم سب کا وزن کم ہو رہا ہے۔‘
40 سالہ حنا المدہون نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ غزہ کے لوگ آٹا خریدنے کے لیے اپنی ذاتی چیزیں، حتیٰ کہ سونا بھی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آٹا ’ہر چیز کی بنیاد‘ ہے، لیکن یہ ’مہنگا اور حاصل کرنا مشکل‘ ہو گیا ہے۔
غزہ پٹی میں قیمتیں مسلسل کنٹرول سے باہر بڑھ رہی ہیں اور خوراک کی قلت اپنی مثال آپ ہو گئی ہے۔ اسرائیلی حملے اور بمباری کے 21 مہینے میں فلسطینی صحت حکام کے مطابق 60 سے زیادہ لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
یہ جنگ اور حملہ سات اکتوبر کو اس وقت شروع ہوا جب حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملے کیے جس میں 1200 افراد کی جان گئی اور اکتوبر 2023 میں کم از کم 250 یرغمال بنا لیے گئے۔
43 سالہ یونیورسٹی لیکچرار ایہاب عبداللہ جو نو افراد کے خاندان کے کفیل ہیں، نے کہا کہ وہ ہر رات سونے سے پہلے سوچتے ہیں کہ ’آج اپنے بچوں کو کھانے کے لیے کچھ کیسے دوں گا؟ میں خود بھوک برداشت کر سکتا ہوں، لیکن میرے بچوں کا کیا ہوگا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم بازار میں خوراک خریدنے یا ڈھونڈنے کے قابل نہیں رہے۔ ہم روزانہ بھوک میں زندگی گزار رہے ہیں کیوں کہ سب سے زیادہ درکار چیز، یعنی آٹا، مناسب مقدار میں دستیاب نہیں ہے۔ ہم ایسی حالت میں ہیں کہ اگر پیسے ہوں بھی تو خوراک خرید نہیں سکتے۔ جن کے پاس پیسے ہیں اور جن کے پاس نہیں، دونوں برابر ہو گئے۔ خریداری کی طاقت ختم ہو گئی۔‘
’مجھے ایک کلو دالیں اور پھلیاں تلاش کرنے کے لیے طویل فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ میں یونیورسٹی میں لیکچرار ہوں اور صرف دال خریدنے کے لیے کم از کم 100 ڈالر روزانہ درکار ہوتے ہیں، جب کہ دال کی قیمت 30 ڈالر فی کلو تک پہنچ گئی ہے، اس کے علاوہ جلانے کی لکڑی بھی چاہیے۔‘
32 سالہ یونس ابو عودہ جو غزہ میں بے گھر ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں یوں لگتا ہے جیسے غزہ کے لوگوں کو ’مرغی خانے میں ڈال کر بھوکا رکھا جا رہا ہے۔‘
یونس عودہ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ہم نسل کشی کی جنگ، قحط اور نفسیاتی جنگ سے گزر رہے ہیں۔ یہ بے دخلی کی جنگ ہے، خیموں کی جنگ ہے، گرمی اور دھوپ کی جنگ ہے۔‘
بدھ کو 100سے زیادہ تنظیموں نے ایک خط پر دستخط کیے، جس میں غزہ کے لیے مزید امداد کا مطالبہ کیا گیا کیوں کہ وہاں ’اجتماعی قحط‘ کا سامنا ہے۔
اسرائیلی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ قحط نہیں پیدا کر رہی۔ حکومتی ترجمان ڈیوڈ مینسر کے مطابق خوراک کی ’انسانی پیدا کردہ کمی‘ ’حماس کی منصوبہ بندی‘ ہے۔
بدھ کو ڈیوڈ مینسر نے کہا کہ 19 جولائی سے منگل تک 4400 سے زیادہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے، جن میں خوراک، آٹا اور چھوٹے بچوں کی خوراک شامل تھی۔
ڈیوڈ مینسر کا مزید کہنا تھا کہ غزہ ہیومنیٹرین فاؤنڈیشن، جو امریکی حمایت یافتہ متنازع تنظیم ہے اور غزہ میں امداد پہنچانے میں سب سے آگے ہے، نے منگل کو ایک ہی دن میں غزہ کے لوگوں کو 20 لاکھ کھانے فراہم کیے۔
انہوں نے کہا: ’حماس خوراک کی تقسیم کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہاں غزہ میں بھوک ہے، وہ حماس کی پیدا کردہ ہے۔‘
© The Independent