کیا ڈالر کی بادشاہت ختم ہونے والی ہے؟

ڈالر راج کے لیے ایسے خطرات پیدا ہو چکے ہیں، جو بالآخر اس کی بادشاہت کے زوال کا باعث بنیں گے۔

آٹھ اپریل، 2025 کو بیجنگ میں چینی 100 یوآن کے نوٹ (سرخ رنگ میں) اور امریکی 100 ڈالر کے نوٹ دکھائے گئے ہیں (اے ایف پی)

ایک عشرے سے محسوس کیا جا رہا تھا کہ چین ایک دن ڈالر کی بادشاہت کو چیلنج کرے گا۔ تو کیا واقعی وہ وقت آن پہنچا ہے؟ کیا پیٹرو ڈالرکی اجارہ داری ختم ہونے والی ہے اور اب پیٹرو یوآن اور مقامی کرنسیوں کا دور شروع ہونے والا ہے؟

کاغذ کی کرنسی، کاغذ کے پھول کی طرح ہوتی ہے، بھلے وہ ڈالر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی اپنی کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ اس کا سارا حسن و جمال مستعار ہوتا ہے۔ جس دن یہ مستعار بندوبست لڑکھڑایا، اس روز کاغذ کی وجاہت کا تاج محل زمین پر آن گرے گا۔

ڈالر کی وجاہت کا ایک بڑا حصہ بھی مصنوعی ہے۔ یہ اپنی حقیقت کی بنیاد پر راج نہیں کر رہا، یہ اپنے تاثر کی بنیاد پر حکومت کر رہا ہے۔ جس روز تاثر گھائل ہو گیا، اس دن بادشاہت بھی لڑکھڑا جائے گی۔

ایک ملک چیز بناتا ہے، دوسرا اس کو خریدتا ہے۔ خرید و فروخت کے اس عمل میں یہ چیز امریکی منڈی میں جاتی ہی نہیں۔ امریکہ کا اس لین دین سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود لین دین ڈالر میں ہوتا ہے۔ ڈالر بیٹھے بٹھائے معتبر ہو جاتا ہے۔

اسی طرح پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کو عالمی مالیاتی نظام میں اپنا اعتبار رکھنے کے لیے قومی خزانے میں اربوں ڈالر رکھنے پڑتے ہیں۔ اس سے ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ وہ معتبر ہو جاتا ہے۔

فرض کریں کسی روز دنیا کے کافی سارے ممالک تجارت اور لین دین کے لیے ڈالر کے محتاج نہ رہیں بلکہ اپنی مقامی کرنسیوں کو متبادل بنا لیں۔ اس روز دنیا کا معاشی منظر نامہ کیا ہو گا؟

جب بہت سے ممالک کی باہمی تجارت ڈالر کی محتاج نہ رہے تو خزانے میں ڈالر رکھنے کی محتاجی بھی کم ہو جائے گی۔ اب فرض کریں دنیا کے ممالک اپنے خزانوں میں ڈالر کی بجائے سونا یا کوئی اور کرنسی رکھنا شروع کر دیں۔ اس وقت ڈالر کہاں کھڑا ہو گا؟

تاہم ڈالر کی اس اجارہ داری کو چیلنج کرنا آسان نہیں۔ اس کے پیچھے امریکی قوت اور عالمی مالیاتی نظام کھڑا ہے۔ ڈالر کا زوال اس سارے بندوبست کا زوال ہے۔

ڈالر کے حضور کچھ کمزور ممالک نے گستاخی کی اور اس کے نتائج انہیں بھگتنا پڑے۔ صدام حسین کا حقیقی جرم بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ اس نے تیل کی تجارت کو ڈالر سے بے نیاز کرنے کی کوشش کی تھی۔

یہ کام چین جیسا کوئی ملک کر سکتا تھا جو معاشی اور عسسکری، ہر دو لحاظ سے اس قابل ہو کہ اس مالیاتی گستاخی کے نتائج برداشت کر سکے۔ چین دھیرے دھیرے اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین نے 2009 میں یوآن کو تجرباتی اکھاڑے میں اتارا اور پہلے مرحلے میں آسیان کے 10 ممالک کے ساتھ یوآن میں تجارت شروع کی۔ اس وقت یوآن اپنا آپ بڑی حد تک منوا چکا ہے۔

چند دہائیوں پہلے گلوبل فارن ریزرو کا 71 فی صد ڈالر ہوا کرتا تھا۔ اب یہ کم ہو کر 58 فی صد تک آ گیا ہے۔ امکانات یہ ہیں کہ اسے مزید کم ہونا ہے کیونکہ دنیا اب ڈالر سے آگے کا سوچ رہی ہے۔

مثال کے طور پر روس اور چین میں باہمی تجارت اب ڈالر کی محتاج نہیں رہی۔ ان کی باہمی تجارت کا 90 فی صد سے زیادہ اب مقامی کرنسیوں سے منسلک ہے۔ قریب تین درجن ممالک چین سے تجارت اب ڈالر میں نہیں کر رہے یوآن میں کر رہے ہیں۔

اسی طرح سوئفٹ کے سامنے چین اور روس نے ادائیگیوں کا ایک نیا نظام کھڑا کر دیا ہے۔ یہ اب دو طرفہ بھی نہیں رہا کیونکہ دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک اور ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مالیاتی ادارے اس نئے نظام سے منسلک ہو چکے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ برکس ممالک میں ڈالر کے متبادل ایک باقاعدہ نئی کرنسی پر غور ہو رہا ہے۔ امریکہ اس کے مضمرات کو سمجھتا ہے۔

اسی لیے وہ برکس ممالک کو مختلف زاویوں سے تنبیہہ کر رہا ہے۔ برکس کی متبادل کرنسی کوئی معمولی چیز نہیں ہو گی۔ برکس کا مطلب دنیا کے جی ڈی پی کا 36 فی صد ہے۔

چین اپنے ریزروز کے لیے بھی ڈالر سے نجات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس نے ڈالر کی بجائے سونے کو ترجیح دینا شروع کی ہوئی ہے اور جس انداز سے وہ سونا خرید رہا ہے یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔

صرف گذشتہ سال چین نے 300 ٹن سونا خریدا ہے۔ اس کے پاس سونے کے ذخائر 2300 ٹن ہو چکے ہیں۔ یعنی چین اس سمت جا رہا ہے جہاں اس کے ریزروز کا تعین اس بات سے نہیں ہو گا کہ اس کے خزانے مین ڈالر کتنے ہیں بلکہ اس کا تعین اس سے ہو گا کہ اس کے پاس سونا کتنا ہے اور یوآن کتنے پڑے ہیں۔

چین سعودی عرب کے تیل کا ایک بڑا خریدار ہے۔ شاید سب سے بڑا۔ ایک طویل عرصہ چین یہ تیل امریکی ڈالر میں خریدتا تھا۔

اب یہ خریدوو فروخت بھی مکمل طور پر ڈالر میں نہیں ہو رہی بلکہ یوآن میں بھی ہو رہی ہے۔ جوں جوں بات بڑھے گی۔ اس کا امکان ہے کہ باہمی تجارت میں یوآن کا حجم بڑھتا جائے گا اور ڈالرپر انحصار سکڑتا جائے گا۔

ڈالر کی بادشاہت ختم ہوتی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ تاہم یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ڈالر راج کے لیے ایسے خطرات پیدا ہو چکے ہیں، جو بالآخر اس کی بادشاہت کے زوال کا باعث بنیں گے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ