پاکستانی روپے اور امریکی ڈالر میں قدر کے اتار چڑھاؤ سے ہٹ کر ایک اور قدر بھی مشترک ہے اور وہ ہے ان دونوں کے معنی جو چاندی سے اخذ کیے گئے ہیں۔
ڈالر کا لفظ جرمن لفظ یوآ کی مس تھالر سے مستعار لیا گیا ہے۔
ہولی رومن ایمپائر نے 1518 میں پہلی مرتبہ چاندی کے سکے متعارف کروائے تھے اور اس مقصد کے لیے چاندی یوآکی مس نامی ایک وادی سے نکالی جاتی تھی، جو موجودہ چیک ریپبلک میں واقعے ہے۔
چونکہ یہ سکے سائز میں بڑے تھے اس لیے انہیں جرمن زبان میں تھالر یعنی ٹالر کا نام دیا گیا۔
پھر یوں ہوا کہ صدیاں گزریں تو لوگ وادی کا نام بھول گئے اور تھالر ڈالر بن گیا۔
روپیہ کا لفظ پہلی مرتبہ چوتھی صدی قبل مسیح کے ایک ہندو انشا پرداز پا نی نی کی کتاب میں استعال ہوا، جو چاندی کے مہر زدہ سکے تھے اور انہیں ادائیگیوں کے طور پر استعال کیا جاتا تھا۔
موریہ سلطنت کے پہلے وزیراعظم چانکیا کی کتاب آرتھاشسترا میں بھی موریا سلطنت کی کرنسی کو روپیہ لکھا گیا ہے۔
اس طرح روپیہ سنسکرت زبان کا لفظ بن گیا، جس کے معنی ڈھالی ہوئی یا داغی گئی چاندی پڑا۔
ہندوستان میں تاریخی اعتبار سے کرنسی روپیہ ہی کہلاتی رہی اور شیر شاہ سوری نے 1540 میں چاندی کے سکوں کا نام روپیہ رکھ کر اس کا باقاعدہ اجرا کیا۔
ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں پہلی مرتبہ 1770 میں بینک آف ہندوستان نے کاغذ کی کرنسی کا اجرا کیا جو کئی تبدیلیوں سے گزرتے ہوئے 1947 تک زیر استعمال رہے۔
قیام پاکستان کے وقت ریزرو بینک آف انڈیا کے اجرا شدہ کرنسی نوٹوں پر حکومت پاکستان کی مہر لگا کر استعمال کی ضمانت دی جاتی تھی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، آئی ایف ایف، سی آئی ای سی اور یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے پبلک ڈیٹا کی جانچ پڑتال سے پتہ چلتا ہے کہ 1947 میں ایک امریکی ڈالر پاکستانی تین روپے 31 پیسے کا تھا۔
1958 میں جب جنرل ایوب خان نے پاکستان میں پہلا مارشل لا لگایا تو اس وقت ایک امریکی ڈالر چار روپے 76 پیسے پر پہنچ گیا اور 1971 تک معمولی سے فرق کے ساتھ اسی سطح پر برقرار رہا۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے اور پاکستان کی پہلی منتخب حکومت یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ڈالر آٹھ روپے 68 پیسے سے شروع ہوا اور 1977 تک نو روپے 90 پیسے تک پہنچ گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ گذشتہ 16 سال کے مقابلے میں 107 فیصد اضافہ تھا۔ 1981 تک ڈالر اسی سطح پر برقرار رہا۔
1982 میں جنرل ضیا الحق کا اقتدار جوبن پر تھا اور ڈالر کی سطح 11 روپے 84 پیسے پر۔ یہ 1988 میں طیارہ حادثے میں ان کی موت تک 18 روپے تک پہنچ گئی۔
1989 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو دو دو مرتبہ اقتدار ملا۔ ان دس سالوں میں ڈالر 20 روپے 54 پیسے سے 49 روپے 50 پیسے پر پہنچ گیا۔
گذشتہ دہائی کے مقابلے میں یہ ان دس سالوں میں ڈالر کی قیمت میں 175 فیصد اضافہ تھا۔
پھر باری آتی ہے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار کی، جس میں ڈالر سال 2000 میں 53 روپے 64 پیسے سے شروع ہوا اور 2008 میں 70 روپے 40 پیسے تک پہنچ گیا۔
یعنی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 42 فیصد اضافہ ہوا۔
2009 سے 2018 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن حکومت میں رہیں۔ اس دوران ڈالر کی قدر 81 روپے 71 پیسے سے 2018 تک 121 روپے 82 پیسے پر پہنچ گئی۔
یعنی ان دس سالوں میں ڈالر کی قدر میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔
عمران خان کے دور اقتدار میں ڈالر 2019 میں 150 روپے پر پہنچ گیا جو اپریل 2021 میں ان کی وفاقی حکومت کے خاتمے تک 180 روپے پر تھا، یعنی عمران خان کے دور حکومت میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 47 فیصد اضافہ ہوا۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کی اتحادی حکومت میں ڈالر اب تک تقریباً 240 روپے تک پہنچ گیا ہے، یعنی صرف گذشتہ تین ماہ میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 33 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
75 سالوں کی مہنگائی کی شرح، قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور دیگر اقتصادی اشاریوں کو مد نطر رکھیں تو مجموعی طور پر پاکستانی روپے کی قدر میں 1229 فیصد کمی آ چکی ہے۔
آسان الفاظ میں یہ کہ اگر 1947 میں آپ کے پاس ایک روپیہ تھا تو وہ آج کے ایک ہزار 229 روپے بنتے ہیں۔