میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں پروفیسر اور معروف امریکی ماہر معیشت چارلس پی کنڈل برگر یورپ کی تعمیر نو کے فکری معمار تھے۔
اگرچہ انہوں نے 30 کتابیں لکھیں مگر انہیں سب سے زیادہ ان کی ہیجیمونک سٹیبلیٹی تھیوری کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔
اس نظریے کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی نظام میں استحکام صرف ایک غالب طاقت کے ذریعے ہی ممکن ہے، جو تجارت کے لیے کھلے بازار، مستحکم کرنسی یا سمندروں میں آزادانہ آمد و رفت جیسے اقدامات کے ذریعے دنیا میں عوامی بھلائی کے لیے کام کرے۔
کنڈل برگر نے اپنی تھیوری کی بنیاد دو عالمی جنگوں کے درمیانی دور پر رکھی۔
جب برطانیہ کی طاقت کمزور ہوئی تو امریکہ نے غالب طاقت کا کردار اپنانے سے گریز کیا، جس کے نتیجے میں 1930 کی دہائی میں شدید سیاسی و معاشی بحران پیدا ہوا.
تاہم 1944 تک منظرنامہ پیکس امریکانا (Pax Americana) کے لیے تیار ہو چکا تھا کیونکہ امریکہ نے بالآخر بریٹن ووڈز میں عالمی اقتصادی نظام کی تشکیل کے لیے عالمی عوامی بھلائی کی فراہمی کا عزم کیا۔
بعد کے محققین نے کنڈل برگر کے خیالات پر مزید تحقیق کی۔ گذشتہ ماہ اپنی آخری سانس لینے والے جوزف ایس نائے نے کنڈل برگر ٹریپ نظریے (Kindleberger Trap) کو باقاعدہ متعارف کروایا۔
یہ نظریہ اس وقت کو ظاہر کرتا ہے جب ایک غالب طاقت سے دوسری کی طرف منتقلی کے دوران دنیا شدید سیاسی و اقتصادی خلفشار کا شکار ہو جاتی ہے۔
حال ہی میں امریکہ کو بعض ایسی عالمی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا گیا، جو جدید عالمی اقتصادی نظام کی بنیاد رہی ہیں۔
اس پر قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ شاید امریکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھی پیچھے ہٹنے والا ہے۔
ٹرمپ حکومت کے حکام کا کہنا تھا کہ چونکہ امریکی ڈالر دنیا کی ریزرو کرنسی ہے، اس لیے اس کی قدر فطری طور پر بہت زیادہ ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے امریکی اشیا مہنگی ہو گئیں اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہو گئی۔
اس حوالے سے سٹیفن میران نے ایک مشہور رپورٹ میں تجویز دی کہ امریکی ڈالر کی قدر کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی معاہدہ کیا جائے۔
ایسی باتوں نے بعض سرمایہ کاروں کو امریکی اثاثہ جات سے دست بردار ہونے پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔
ساتھ ہی جب ڈالر کی قدر یورو اور ین کے مقابلے میں کمزور ہوئی تو دنیا کی غالب کرنسی کے طور پر اس کے مستقبل پر سوالات اٹھنے لگے۔
دنیا جیسے جیسے بے بسی سے ایک کلاسیکی کنڈل برگر ٹریپ کی طرف بڑھ رہی ہے، خاص طور پر جب دنیا بھر میں جیو پولیٹکل تنازعات کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ دنیا کی قیادت چین کے سپرد کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔
تاہم اس عالمی طاقتوں کے مقابلے کا آخری باب ابھی لکھا نہیں گیا۔
قوموں کو کسی نتیجے پر جلد بازی سے نہیں پہنچنا چاہیے اور پالیسی سازوں کو بھی چاہیے کہ وہ حکام کے بیانات کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیں۔
خاص طور ایسے ماحول میں جب ہر جانب جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہوں، ایسے میں کوئی بھی غلطی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے ساتھ حالیہ تنازعے میں انڈین پالیسی سازوں پر ایسا تاثر غالب تھا کہ اس میں امریکہ سفارتی مداخلت نہیں کرے گا۔
ممکن ہے اس سوچ کو امریکی حکام کے ابتدائی بیانات نے تقویت دی ہو، خاص طور پر نائب صدر جے ڈی وینس کے اس بیان نے کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔‘
لیکن جیسے ہی اس تنازعے نے شدت اختیار کی، سعودی عرب جیسی عالمی طاقتوں نے تیزی سے انڈیا اور پاکستان دونوں سے سفارتی رابطہ کیا۔
سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے نئی دہلی اور اسلام آباد کا دورہ کیا تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔
ساتھ ہی امریکی نائب صدر اور وزیر خارجہ نے انڈین اور پاکستانی قیادت سے رابطے کیے تاکہ ماحول کو پر امن بنایا جا سکے اور سیزفائر کی راہ ہموار ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ حالیہ جنوبی ایشیائی تنازعے نے واشنگٹن میں پالیسی کے میدان میں گہری سوچ و بچار کو جنم دیا ہے۔
امریکہ عالمی نظام کی باگ ڈور چین کے سپرد کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنے غالب کردار کو برقرار رکھنے کے لیے سخت مقابلہ کرے گا۔
امریکہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں بلکہ مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں فعال کردار ادا کرتا رہے گا۔
یہ پالیسی تبدیلی ان قیاس آرائیوں کو بھی ختم کر دیتی ہے کہ امریکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے دست بردار ہونے والا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ نے طویل عرصے سے ان اداروں پر اثر و رسوخ قائم رکھا ہے اور ان کی قیادت اور پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔
اگر امریکہ ان اداروں سے علیحدہ ہوتا ہے تو اس سے سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہو گا کیونکہ اس سے عالمی مالیاتی نظام کے قواعد پر اثرانداز ہونے کی اس کی اصل طاقت ختم ہو جائے گی۔
اسی طرح بین الاقوامی مالیاتی نظام پر امریکی ڈالر کی برتری بھی ختم نہیں ہونے والی۔ اگرچہ ڈالر پر دباؤ ہے لیکن فی الحال اس کا کوئی متبادل نہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق 2024 میں امریکہ دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا 26 فیصد پیدا کر رہا تھا، جو 1980 کے 25 فیصد کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے حالانکہ اس دوران چین کی معیشت نے غیرمعمولی ترقی کی۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ تنازعے کے بعد امریکہ کی طرف سے کروائے گئے جنگ بندی معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ واقعات نے امریکی پالیسی سازوں کو جھنجھوڑ دیا ہے۔
اگرچہ امریکہ دنیا کی چوہدراہٹ سے گریز کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اتنی آسانی سے اپنی عالمی طاقت چھوڑنے والا نہیں۔
دوسرے الفاظ میں دنیا ’کنڈل برگر ٹریپ‘ کی طرف جا سکتی ہے لیکن امریکہ بغیر لڑے اپنی عالمی برتری نہیں چھوڑے گا۔
مصنف نے فل برائٹ سکالرشپ پر معاشیات میں اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ ان کا ایکس ہینڈل @AqdasAfzal ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔