’مہاراشٹر کی سوشما گپتا کا نام اس ووٹر لسٹ میں چھ بار شامل کیا گیا ہے جس کی وساطت سے بی جے پی ریاست میں حکومت بنانے کی اہل بن گئی۔‘
کانگریس اور بعض میڈیا چینلوں نے پلگار کی سوشما کی ایک مثال دی جہاں ایک ووٹ کے بدلے میں سات ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن کے تین سو سے زائد اراکینِ پارلیمان نے چند روز پہلے انتخابی کمیشن اور پارلیمان کے باہر ’ووٹ چور، گدی چور‘ کے بلند بانگ نعرے لگا کر انکشاف کیا کہ انتخابات میں پارلیمان کی تقریباً 50 نشستوں پر بی جے پی نے ووٹ چوری کر کے 240 سیٹیں حاصل کیں اور اتحادی جماعتوں کی حمایت سے اپنی حکومت بنانے میں پہل کر دی۔
گذشتہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے 240 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ اتحادی اپوزیشن انڈیا بلاک کو 234 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔
جب سے کانگریس اور پارلیمان میں اپوزیشن کے رہنما راہول گاندھی نے ایک بھرپور پریس کانفرنس کے دوران کرناٹک کی ایک نشست کی مبینہ دھاندلی زدہ انتخابی فہرست پیش کر دی، جس میں بقول ان کے ایک لاکھ 250 ووٹ چوری کر کے بی جے پی کے کھاتے میں ڈالے گئے ہیں، تب سے بیشتر ووٹر ایک انتشاری کیفیت سے دوچار ہیں اور اسے آئین اور جمہوریت پر ایک ڈاکہ تصور کر رہے ہیں۔
راہول گاندھی نے اس انکشاف سے پہلے ملک کو درپیش کئی مسائل کی نشاندہی کی مگر بی جے پی اور اس کے حامی میڈیا نے اسے راہول کی ذہنی خرافات سے تعبیر کیا بلکہ جب انہوں نے پارلیمان کے حالیہ اجلاس میں دھواں دار تقریر میں آپریشن سندور میں نقصانات یا ٹرمپ کی ثالثی کو خارجہ پالیسی کا لقوہ قرار دیا تو بقول مبصرین اس کا اثر زائل کرنے کے لیے اسی روز پہلگام حملے کے دہشت گردوں کو مارنے کی خبر میڈیا پر نشر کر دی گئی۔
پھر جب چند روز پہلے انہوں نے ووٹ چوری کے شواہد پیش کر کے انتخابی کمیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسے بی جے پی کو جتوانے میں حصہ دار قرار دیا تو اگلے دن فوجی سربراہ نے آپریشن سندور میں پاکستان کو بھاری نقصانات کی تفصیل دے کر مبینہ انتخابی دھاندلیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اب کی بار بیشتر عوامی حلقوں میں مبینہ ووٹ چوری کے ان شواہد کے بعد کافی پریشانی لاحق ہو گئی ہے اور وہ اسے انتخابی عمل کی تحقیر سمجھ رہے ہیں۔
مالیگاؤں کے شہری بسنت کشور کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی عمر میں پہلی بار ووٹ ڈالا اور پکا یقین تھا کہ میرا امیدوار جیتے گا مگر توقع کے برعکس دوسری پارٹی کا امیدوار جیت گیا۔ اب جب پتہ چلا کہ ایک شخص کے بدلے سات لوگوں نے ووٹ ڈالا یا ایک ہی ایڈریس پر 80 سے زائد ووٹر رہتے ہیں یا مرے ہوئے لوگوں نے ووٹ ڈالے ہیں تو میرا انتخابات پر سے اعتماد اُٹھ گیا۔ اب میں کبھی ووٹ نہیں ڈالوں گا، انڈیا کی جمہوریت پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔‘
اپوزیشن نے انتخابی کمیشن سے اس مبینہ دھاندلی کی وضاحت طلب کی مگر اس نے الزام کو رد کرتے ہوئے اسے اپوزیشن کا وہم بتایا۔ دیکھا گیا کہ انتخابی کمیشن کے بجائے بی جے پی کی آئی ٹی ٹیمیں اس کی مسلسل وکالت کر رہی ہیں۔ بی جے پی کے ایک وزیر نے راہول پر الزام لگایا کہ وہ غیر ملکی عناصر سے مل کر انڈیا کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔
وزیرِ تعلیم دھرمیندر پردھان نے یہاں تک کہہ دیا کہ راہول کی زبان سے وہی الفاظ نکل رہے ہیں جو ہمارا پڑوسی دشمن ملک کہہ رہا ہے۔ سابق سینیئر وزیر روی شنکر پرشاد نے کہا کہ راہول نے بے شرمی کی تمام حدیں پار کر کے کمیشن کے امیج کو داغدار بنا دیا ہے۔
ووٹ چوری کے اس معاملے کی کڑیاں بہار کے ریاستی انتخابات سے منسلک بتائی جاتی ہیں جہاں انتخابی کمیشن نے ’سپیشل انٹینسیو ریویو‘ کے نام سے شروع کی جانے والی مہم کے دوران 65 لاکھ ووٹروں کو فہرست میں غائب کر دیا ہے، جن میں اکثر کو روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکینِ وطن بتایا جا رہا ہے۔ انتہا پسند ہندو جماعتوں نے یہ بیانیہ پھیلایا ہے کہ ملک میں دو کروڑ غیر قانونی تارکینِ وطن ہیں جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ اس معاملے پر عدالتِ عظمیٰ میں بحث و تمحیص جاری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی جے پی کی حکومت گو کہ اپنے رعب و دعب سے اپوزیشن کو خاموش کرنے میں کوشاں ہے مگر اس بار معاملہ اتنا آسان نہیں لگ رہا ہے کہ الٹرا نیشلزم کی لہر اس کو بھی نگل لے گی۔
اس وقت 90 کروڑ سے زائد ووٹر سکتے میں ہیں جو اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ انڈیا میں انتخابی عمل ہمیشہ صاف و شفاف رہا ہے اور بغیر کسی دھونس دباؤ کے حکومت بنتی رہی ہے، مگر راہول گاندھی کے پیش کردہ شواہد نے اس خوش فہمی کو ہوا میں اڑا دیا۔
بیشتر ووٹروں کو غصہ ہے اور اندرونی طور پر بی جے پی کی قیادت بھی سبکی محسوس کر رہی ہے۔ اگر انڈیا میں جمہوری یا انتخابی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو عین ممکن ہے کہ بی جے پی کے بعض رہنماؤں سمیت اپوزیشن بھی اس کی مخالفت کرے، مگر وزیرِ داخلہ امیت شاہ کے مطابق بی جے پی اگلے کئی الیکشن جیت کر دکھائے گی اور ان کی حکومت اتنی جلدی جانے والی نہیں ہے۔
میڈیا کے ذریعے انڈیا کو ہندو راشٹر یا صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کا جو بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے، انتہا پسند ہندوؤں کی بڑی تعداد ذہنی طور پر کسی حد تک اس کے لیے تیار ہو چکی ہے، مگر انتخابی عمل پر مبینہ ڈاکہ انڈیا کی جمہوریت کو پامال کرنے لگا ہے اور اپوزیشن کی مہم عوامی مہم میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔
ووٹروں کا غصہ اور اپوزیشن کے تابڑ توڑ حملے کیا بی جے پی کی حکومت، ہندو لہر اور بی جے پی کے ہندو راشٹر کے بیانیے کو ختم کر پائیں گے؟ یہ بڑا سوال ہے اور اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔