انڈیا: بہار میں انتخابات سے قبل ووٹر رجسٹریشن نظرثانی کو تنقید کا سامنا

ریاست کے سات کروڑ 80 لاکھ ووٹرز کی شناخت کی تصدیق کے لیے یہ مہم 24 جون کو شروع کی گئی، جو کہ اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات سے پہلے مکمل ہو گی۔

الیکشن کمیشن آف انڈیا کا عملہ 23 نومبر 2024 کو ممبئی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مہر توڑ رہا ہے (اندرانیل مکھرجی / اے ایف پی)

انڈیا کے اعلیٰ ترین انتخابی ادارے کو ریاست بہار میں ایک اہم ریاستی انتخاب سے قبل ووٹر رجسٹریشن کی وسیع نظرثانی پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ کارکنوں اور اپوزیشن گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس عمل سے ملک کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک میں بڑے پیمانے پر ووٹرز کے حقِ رائے دہی سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔

ریاست کے سات کروڑ 80 لاکھ ووٹرز کی شناخت کی تصدیق کے لیے یہ مہم 24 جون کو شروع کی گئی، جو کہ اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات سے پہلے ہے۔ اس عمل میں سخت دستاویزی تقاضے شامل ہیں، جس سے خدشہ ہے کہ کمزور طبقات، خاص طور پر وہ افراد جو شہریت ثابت کرنے کے لیے مطلوبہ کاغذات فراہم نہیں کر سکتے، اس سے خارج ہو سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف انڈیا کا کہنا ہے کہ تقریباً چار کروڑ 96 لاکھ ووٹرز، جن کے نام 2003 میں اسی طرح کی ایک مشق میں شامل کیے گئے تھے، انہیں مزید کوئی دستاویز جمع کرانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے نتیجے میں تقریباً تین کروڑ ووٹرز کو ووٹ کے حق سے محروم کیے جانے کا خطرہ ہے۔

اگرچہ الیکشن کمیشن کا اصرار ہے کہ یہ عمل، جسے ’ سپیشل انٹینسیو ریویژن ( ایس آئی آر) کہا جاتا ہے، ووٹر فہرستوں کی درستگی کے لیے ایک معمول کی اپڈیٹ ہے، لیکن اپوزیشن رہنماؤں، سول سوسائٹی گروپوں اور سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ آسام میں متنازع نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی یاد دلاتا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 20 لاکھ افراد شہریت ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہو گئے تھے۔

چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھرپور مشاورت کی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا: ’الیکشن کمیشن آف انڈیا  نے تمام تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں کو بات چیت کے لیے مدعو کیا۔ کوئی بھی موجودہ ووٹر فہرست سے مطمئن نہیں تھا، سب کو کسی نہ کسی وجہ سے اعتراض تھا۔‘

 انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گذشتہ چار ماہ کے دوران 28,000 جماعتی نمائندوں کے ساتھ 5,000 سے زائد اجلاس منعقد کیے جا چکے ہیں۔

بہار میں 2003 کے بعد پہلی بار ووٹر فہرستوں کی نظرثانی کی جا رہی ہے۔ نئے طریقہ کار کے تحت، تقریباً دو کروڑ 93 لاکھ ووٹرز جن کے نام 2003 کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، انہیں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے 11 میں سے کم از کم ایک مخصوص دستاویز جمع کرانی ہو گی۔ یہ دستاویزات جمع کرانے کی آخری تاریخ 25 جولائی مقرر کی گئی ہے۔

اس نئے عمل کے تحت، وہ تمام افراد جن کے نام 2003 کی ووٹر فہرست میں نہیں تھے، انہیں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے 11 مخصوص دستاویزات میں سے کم از کم ایک فراہم کرنا ہو گا۔ یہ دستاویزات جمع کرانے کی حتمی تاریخ 25 جولائی ہے۔ یکم اگست کو مسودہ ووٹر فہرست شائع کی جائے گی، اور یکم اگست سے یکم ستمبر تک کا وقت دیا جائے گا جس میں ووٹرز اپنے دعوے یا اعتراضات درج کرا سکتے ہیں، اس کے بعد حتمی ووٹر فہرست 30 ستمبر کو جاری کی جائے گی۔

انڈپینڈنٹ کو دیے گئے ایک بیان میں کانگریس کے ترجمان سرل پٹیل نے انتخابی ادارے سے زیادہ شفافیت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کی پارٹی اصولی طور پر ووٹر فہرست کی نظرثانی کے خلاف نہیں، لیکن موجودہ طریقہ کار آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز( این آر سی) جیسے ’المناک تجربے‘ کو دہرا سکتا ہے — وہ مشق جس میں 2019 میں تقریباً 20 لاکھ افراد کو شہریت کی فہرستوں سے خارج کر دیا گیا تھا اور وہ قانونی غیریقینی میں پھنس گئے تھے۔

پٹیل نے کہا: ’کانگریس پارٹی کا مؤقف اور مطالبہ بہت سادہ ہے: ہم اصرار کرتے ہیں کہ ہر اہل ووٹر کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔‘

کئی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’انڈیا بلاک کی ای سی آئی سے ملاقات نیک نیتی پر مبنی تھی، کسی قانونی عمل پر اعتراض کی بنیاد پر نہیں — ہم نظرثانی کے خلاف نہیں ہیں، لیکن یہ انتہائی احتیاط سے کی جانی چاہیے، اور بالخصوص عام انتخابات سے عین قبل ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔‘

سماجی کارکن ہرش مندر نے آسام میں شدید تقسیم پیدا کرنے والے این آر سی سے ایک سخت موازنہ پیش کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ مشق انڈیا کی تاریخ کا ایک دردناک باب دہرا سکتی ہے۔

دی انڈپنڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے ہرش مندر، جو ایک سابق سول سرونٹ اور معروف انسانی حقوق کے علمبردار ہیں، نے کہا کہ بہار میں ووٹر فہرست کی ازسرنو ترتیب میں وہی بنیادی خامی پائی جاتی ہے جو این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) میں تھی — یعنی عام شہریوں پر شہریت ثابت کرنے کی ذمہ داری ڈال دینا، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں دستاویزی نظام کمزور اور سماجی و معاشی ناہمواری شدید ہے۔

انہوں نے کہا، ’این آر سی کا سارا تصور ہی یہ تھا کہ عام شہریوں پر ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ڈال دی جائے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا، انڈیا جیسے ملک میں ان دستاویزات پر انحصار کرنا ایک مشکل کام ہے، خاص طور پر اس لیے کہ ہمارے یہاں ریکارڈ رکھنے کا مؤثر نظام کبھی نہیں رہا۔‘

مندر کے مطابق، اس طرح تاریخی دستاویزات مانگنا غیر حقیقی مطالبہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں سرکاری ریکارڈ کی موجودگی یا دستیابی طویل عرصے سے غیر یقینی اور غریبوں کی پہنچ سے باہر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’ہمارے ہاں ایسے لوگ ہیں جو کبھی سکول نہیں گئے یا جن کی شادی رجسٹرڈ ہی نہیں ہوئی۔ میری اپنی شادی بھی رجسٹرڈ نہیں تھی۔ تو ایسے ملک میں جہاں لوگ کبھی ان دستاویزات پر انحصار ہی نہیں کرتے تھے، وہاں ان کی شرط رکھنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘

اپوزیشن رہنماؤں، جن میں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا، ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا، کارکن یوگندر یادو اور سول سوسائٹی تنظیمیں جیسے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز اور پیپلز یونین فار سول لبرٹیز شامل ہیں، نے نظرثانی کے عمل کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

ان کا مؤقف ہے کہ سپیشل نٹینسیو ریویژن ( ایس آئی آر) کے نتیجے میں لاکھوں ووٹرز کے نام فہرست سے حذف ہو سکتے ہیں، اور یہ عمل خاص طور پر خواتین اور سماجی و اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کو متاثر کرے گا۔ عدالت نے اس معاملے کی سماعت کے لیے جمعرات کا دن مقرر کیا ہے، لیکن اس عمل کو روکنے کا حکم جاری نہیں کیا۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ایس آئی آر مختلف وجوہات کی بنیاد پر ضروری ہے: نقل مکانی میں اضافہ، شہروں کا بڑھنا، نئے بالغ ووٹرز کی شمولیت، غیر رپورٹ شدہ اموات، اور غیر اہل افراد کے ناموں کی شمولیت، جن میں مشتبہ غیر قانونی تارکین وطن بھی شامل ہیں۔

بوٹتھ لیول افسران (BLOs) گھر گھر جا کر تصدیق اور دستاویزات اکٹھا کر رہے ہیں۔ کمیشن کا دعویٰ ہے کہ ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ اس عمل سے بزرگ، معذور اور معاشی طور پر پسماندہ ووٹرز کو پریشانی نہ ہو۔

یقین دہانیوں کے باوجود، اب بھی یہ خدشات برقرار ہیں کہ خاص طور پر پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے ووٹرز مطلوبہ دستاویزات کس حد تک آسانی سے فراہم کر سکیں گے۔

بہار میں تاریخی طور پر سرکاری دستاویزات کا حصول کم سطح پر رہا ہے۔ انتخابی کمیشن کے مطابق قابل قبول قرار دی گئی 11 دستاویزات میں پاسپورٹ، میٹرکولیٹ سرٹیفکیٹ، پیدائش کے سرٹیفکیٹ، حکومت کی جانب سے جاری کردہ شناختی کارڈز اور زمین کی الاٹمنٹ کے دستاویزات شامل ہیں۔ لیکن اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ریاست کے بہت سے باشندوں کی پہنچ ان دستاویزات تک نہیں ہے۔

مثال کے طور پر، 2022 کی بہار ذات پات کے سروے کے مطابق ریاست کی صرف 1.57 فیصد آبادی سرکاری ملازمت میں تھی، جو کہ الیکشن کمیشن کی رہنما اصولوں کے تحت معیار میں شامل ہے۔

 انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اسی طرح، 2023 تک صرف دو فیصد باشندوں کے پاس درست پاسپورٹ تھے، اور صرف 14.71 فیصد افراد نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا تھا، جس کی وجہ سے میٹرک سرٹیفکیٹ تک رسائی بھی محدود رہی۔ بہارمیں پیدائش کی رجسٹریشن بھی تاریخی طور پر کم رہی ہے۔ 2007 میں، اندازاً 28 لاکھ پیدائشوں میں سے صرف 7 لاکھ 13 ہزار کی رجسٹریشن ہوئی تھی۔

رہائشی سرٹیفکیٹ اور ذات کے سرٹیفکیٹ جیسی دستاویزات کے حصول کے لیے اکثر درخواست دہندگان کو پہلے دیگر کاغذات، جیسے آدھار (ڈیجیٹل شناختی نظام) کارڈز اور ووٹر شناختی کارڈز پیش کرنا پڑتے ہیں، جو بہت سے لوگوں کے پاس موجود نہیں ہوتے۔

زمین سے متعلقہ دستاویزات بھی نایاب ہیں، کیونکہ 2011 کی سماجی و اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری کے مطابق دیہی علاقوں کے 65 فیصد سے زیادہ گھرانوں کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔

پٹیل کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن زمینی سطح پر موجود سماجی و معاشی حقائق کو نظر انداز کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’ہم الیکشن کمیشن سے شفافیت کا مطالبہ کرتے ہیں: وہ ٹائم لائنز کی وضاحت کرے، دستاویزات کی شرائط میں نرمی لائے، اور غریبوں، مہاجرین اور محروم طبقات کی مؤثر مدد کرے تاکہ کسی کو ناانصافی سے ووٹر لسٹ سے خارج نہ کیا جائے۔ ووٹ کا حق کوئی ایسا استحقاق نہیں جو کسی سرٹیفکیٹ کے ذریعے دیا جائے — یہ ایک آئینی ضمانت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الیکٹورل رجسٹریشن آفیسرز (EROs)، جو عموماً سب ڈویژنل مجسٹریٹ ہوتے ہیں، درخواستوں کی جانچ اور دستاویزات کی تصدیق کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کے مطابق، کسی بھی نام کو صرف مکمل چھان بین کے بعد ہی ووٹر فہرست میں شامل یا خارج کیا جا سکتا ہے۔

کمیشن کی 24 جون کی ہدایت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی بھی ووٹر کا نام بغیر تحقیق کے اور متعلقہ ووٹر کو جواب کا موقع دیے بغیر حذف نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم، الیکشن کمیشن کی ہدایات کے ایک مخصوص حصے نے تشویش پیدا کی ہے۔ اس میں حکام کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ’مشکوک غیر ملکی شہریوں‘ کے معاملات شہریت ایکٹ کے تحت متعلقہ اتھارٹی کو بھیج سکتے ہیں، جس سے اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

بہار اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف تیجسوی یادو نے ووٹر فہرست میں ترمیم کے اس عمل کو ’ایک سازش‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا، ’آخری بار جب ووٹر لسٹ میں معمول کے مطابق ترمیم ہوئی تھی وہ 2003 میں تھی اور اس میں مکمل ہونے میں تقریباً دو سال لگے تھے۔

’اب نومبر میں انتخابات ہونے ہیں۔ نوٹیفکیشن کے عمل سے پہلے صرف دو ماہ باقی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کو صرف 25 دنوں میں... (آٹھ کروڑ) افراد کی نئی فہرست تیار کرنی ہے۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ریاست کا 73 فیصد حصہ سیلاب سے متاثر ہے!‘

وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، جو بہار میں حکمران اتحاد کا حصہ ہے، نے اس عمل کا دفاع کیا ہے۔ ریاستی وزیر نیتن نبن نے کانگریس پر جعلی ناموں کو ہٹانے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے پوچھا: ’اگر اصلی ووٹرز کی تصدیق ہو رہی ہے اور جعلی ووٹرز کو فہرست سے نکالا جا رہا ہے، تو کیا کانگریس یہاں دھوکہ دہی کرنے بیٹھی ہے؟ کیا آپ جعلی ووٹوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں؟‘

دی نیو انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کیا کہ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق، اسی قسم کی مشقیں اگست سے مغربی بنگال اور نئی دہلی میں بھی شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

مغربی بنگال اور دہلی میں ووٹر فہرستوں کی آخری بار تصدیق بالترتیب 2002 اور 2008 میں کی گئی تھی۔ دہلی میں، ان افراد کو جو 16 مارچ 2008 کے بعد ووٹر لسٹ میں شامل ہوئے تھے، اپنی شہریت ثابت کرنا ہوگی تاکہ ان کا نام ووٹر فہرست میں رہ سکیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا