نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ انڈیا میں شدید فضائی آلودگی کے اثرات نومولود بچوں کی صحت پر منفی طور پر مرتب ہو رہے ہیں جن میں قبل از وقت اور کم وزن کے ساتھ پیدائش ہیں۔
پہلے کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بیرونی فضائی آلودگی اور انسانی صحت پر منفی اثرات کے درمیان گہرا تعلق موجود ہے اور اس کا سب سے زیادہ بوجھ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے رہائشیوں پر پڑتا ہے۔
فضا میں موجود نہایت باریک ذرات جن کا قطر 2.5 مائیکرون سے کم ہوتا ہے اور جنہیں پی ایم 2.5 کہا جاتا ہے ان ممالک میں لوگوں کے لیے خاموش قاتل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
یہ بنیادی طور پر فوسل فیول اور بایوماس جلانے سے پیدا ہوتے ہیں اور انہیں سب سے خطرناک فضائی آلودہ عنصر سمجھا جاتا ہے۔
2023 کی عالمی فضائی معیار رپورٹ کے مطابق، 134 ممالک میں انڈیا پی ایم 2.5 کی اوسط سالانہ سطح کی بنیاد پر تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ آلودہ ملک ہے، جہاں گذشتہ چند دہائیوں میں دمہ، کینسر اور دیگر دائمی بیماریوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق — جسے جریدے PLOS Global Public Health میں پیش کیا گیا — میں سائنس دانوں نے ملک گیر سطح پر فضائی آلودگی کے بچوں کی پیدائش سے متعلق منفی اثرات کا جائزہ لیا۔
تحقیقی ٹیم میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT) دہلی کے سائنس دان بھی شامل تھے، جنہوں نے سیٹلائٹ ڈیٹا اور بڑے پیمانے کے سروے استعمال کرتے ہوئے خاص طور پر ان علاقوں پر توجہ دی جہاں پیدائشی وزن کم اور قبل از وقت پیدائش کی شرح زیادہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ہر دس میں سے ایک بچہ قبل از وقت پیدا ہوا جبکہ ہر پانچ میں سے ایک بچے کا وزن پیدائش کے وقت کم تھا۔ قبل از وقت پیدائش کی سب سے زیادہ شرح شمالی ریاستوں میں پائی گئی، جیسےہماچل پردیش (39 فیصد)، اتراکھنڈ (27 فیصد)، راجستھان (18 فیصد)، دہلی (17 فیصد) اور شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ میں بھی یہی رجحان دیکھا گیا۔
کم پیدائشی وزن کی سب سے زیادہ شرح پنجاب میں (22 فیصد) دیکھی گئی، اس کے بعد دہلی، دادرا و نگر حویلی، مدھیہ پردیش، ہریانہ اور اتر پردیش شامل ہیں۔
سائنس دانوں کو پی ایم 2.5 ذرات کے رحم مادر میں موجودگی اور پیدائش کے منفی نتائج کے درمیان واضح تعلق کے ثبوت ملے ہیں۔
تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ فضا میں پی ایم 2.5 کی سطح میں اضافہ: کم پیدائشی وزن کے امکانات میں پانچ فیصد اضافہ اور قبل از وقت پیدائش کے امکانات میں 12 فیصد اضافہ کرتا ہے۔
بارش اور درجہ حرارت جیسے عوامل بھی پیدائشی نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیق کاروں نے لکھا: ’مطالعے میں یہ واضح رجحان سامنے آیا کہ جیسے جیسے آلودگی کے اثرات کی سطح بڑھتی گئی، ویسے ویسے پیدائش سے متعلق منفی نتائج کا خطرہ بھی بڑھتا گیا۔‘
انہوں نے کہا: ’پی ایم 2.5 کی مقدار میں فی مکعب میٹر 10 مائیکروگرام کے اضافے سے کم پیدائشی وزن کے کیسز میں 5 فیصد، اور قبل از وقت پیدائش کے کیسز میں 12 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔‘
سائنس دانوں نے خبردار کیا کہ انڈیا کے شمالی اضلاع میں بچے فضائی آلودگی کے مضر اثرات کے زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔
تحقیق کے نتائج خاص طور پر شمالی اضلاع میں ہدفی اقدامات کی مزید ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
تحقیق کاروں نے مطالبہ کیا کہ انڈیا کے نیشنل کلین ایئر پروگرام کو مزید مضبوط کیا جائے، اخراج کے معیار سخت کیے جائیں، اور فضائی معیار کی نگرانی کو بہتر بنایا جائے۔
انہوں نے لکھا: ’یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم مل کر دور رس عوامل — جن میں گھر کے اندر اور باہر دونوں قسم کی آلودگی شامل ہے — سے نمٹیں تاکہ بچوں کی صحت میں پائیدار بہتری لائی جا سکے۔‘
© The Independent