’آن لائن اظہار بھی قانون کی زد میں آ سکتا ہے:‘ ہدایت کار جامی کیس پر ماہرین کی رائے

ڈیجیٹل حقوق اور قانونی ماہرین ہدایت کار جامی کے کیس میں عدالتی فیصلے کو پاکستان کے عدالتی منظرنامے میں ایک نئی نظیر قرار دے رہے ہیں۔

جامی پر الزام تھا کہ انہوں نے فروری 2019 میں اپنے فیس بک پیج پر ایک خط پوسٹ کیا جس میں کسی کا نام لیے بغیر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے گئے (وکی میڈیا کامنز)

کراچی کی ایڈیشنل سیشن عدالت نے منگل کو ہدایت کار جمشید محمود رضا المعروف جامی کو 2019 میں سوشل میڈیا پر ساتھی ہدایت کار سہیل جاوید کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے الزام میں دو سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جسے بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے معطل کر دیا۔

ڈیجیٹل حقوق اور قانونی ماہرین سیشن کورٹ کے فیصلے کو پاکستان کے عدالتی منظرنامے میں ایک نئی نظیر قرار دے رہے ہیں، جس میں آن لائن مواد، ڈھکے چھپے انداز میں بیان کرنے اور سوشل میڈیا پر ردعمل کو قانونی طور پر قابلِ تعزیر جرم کے دائرے میں لایا گیا۔

جامی پر الزام تھا کہ انہوں نے فروری 2019 میں اپنے فیس بک پیج پر ایک خط پوسٹ کیا جس میں کسی کا نام لیے بغیر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے گئے۔ 

ہدایت کار سہیل جاوید نے اسی پوسٹ کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ مذکورہ خط میں موجود تفصیلات سے اشارہ ان کی جانب گیا اور یوں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔

سیشن عدالت نے جامی کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 499 اور 500 کے تحت مجرم قرار دیا تھا۔

اگرچہ سندھ ہائی کورٹ نے نو جولائی کو جامی کی جانب سے اپیل کی سماعت کے دوران اس سزا کو معطل کر کے ضمانت منظور کر لی، مگر ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ سوشل میڈیا اور آن لائن اظہار کے تناظر میں ایک اہم مثال قائم کرتا ہے۔

ڈیجیٹل سکیورٹی اور آزادی اظہار پر کام کرنے والی تنظیم ’بولو بھی‘ کی شریک بانی فریحہ عزیز کے مطابق جامی کے خلاف فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا عدالتی فیصلہ ہے جس میں کسی فرد کو آن لائن پوسٹ پر ہتک عزت کے مقدمے میں باقاعدہ سزا دی گئی۔

’یہ فیصلہ صرف جامی کے خلاف نہیں بلکہ یہ واضح پیغام ہے کہ آن لائن اظہار، چاہے وہ اشاروں کنایوں میں ہی کیوں نہ ہو، اب قانونی کارروائی کی زد میں آ سکتا ہے۔‘

فریحہ کے مطابق اس قسم کے کیسز میں پیکا (الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا قانون) کا استعمال بڑھ رہا ہے، جس سے آن لائن آزادی اظہار کے دائرے مزید محدود ہوتے جا رہے ہیں۔

ایڈووکیٹ اور سابق مجسٹریٹ مکیش تلریجا کے مطابق اگرچہ جامی نے اپنی پوسٹ میں کسی کا نام نہیں لیا مگر پوسٹ میں موجود تفصیلات — جیسے متاثرہ فرد کی عمر، ملزم کی خاندانی حیثیت، بیماری، اور دیگر علامات — سے یہ ظاہر ہو گیا کہ اشارہ کس کی طرف ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تلریجا کے مطابق بعد ازاں سوشل میڈیا صارفین نے تبصروں میں اس فرد کا نام لکھنا شروع کیا اور جامی نے یہ تبصرے نہ روکے اور نہ ان کی تردید کی۔

مکیش کا کہنا تھا ‘عدالت نے اس بات کو فیصلہ کن ثبوت کے طور پر تسلیم کیا کہ پوسٹ کے ذریعے مدعی کی شناخت ممکن بنی اور ملزم نے اس کے ازالے کے لیے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا۔‘

مدعی سہیل جاوید نے عدالت میں 31 صفحات پر مشتمل شواہد، سکرین شاٹس اور ویڈیوز پیش کیں، جن میں فیس بک پوسٹ، اس پر کیے گئے تبصرے اور مبینہ طور پر جامی کی جانب سے 2019 میں ’لاہوتی میلو‘ میں اس خط کو عوامی طور پر پڑھنے کی ویڈیوز شامل تھیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ ایک طرف ہتک عزت کے قانون کی حدود کی وضاحت کرتا ہے، تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر عوامی معاملات پر گفتگو کے دائرہ کار کو محدود بھی کر سکتا ہے۔

فریحہ عزیز کا کہنا ہے ’یہ بات تشویش ناک ہے کہ ایسے کیسز میں قانون کا استعمال اکثر طاقت ور افراد کے حق میں ہوتا ہے۔ قانون کی مبہم شقیں آزادی اظہار کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل