سرائیکی وسیب کے خطۂ تھل کو اگرچہ موسیقی، شاعری، ادب، ثقافت اور سیاست کا امیر ترین خطہ کہا جاتا ہے، جس سے وابستہ متعدد نابغۂ روزگار شخصیات نے عالمی سطح پر اپنا سکہ منوایا ہے، یوں لگتا ہے جیسے یہاں ہر صورت میں ثقافتی اظہار ہی غالب رہا ہے۔
مگر اس خطے نے ثقافتی کرداروں کے ساتھ جُڑے کچھ مزاحمتی کردار بھی پیدا کیے ہیں، جن کی محنتوں کے ثمر آج کی نسل شعور اور ترقی کی صورت میں حاصل کرکے آگے بڑھ رہی ہے۔
ان تاریخی کرداروں میں ایک معتبر نام ملک دوست محمد بھچر کا بھی ہے، جو مزدوروں کے عالمی دن، یکم مئی 1920 کو میانوالی کے قصبہ واں بھچراں میں پیدا ہوئے۔ ملک دوست محمد نے مزدور کسان پارٹی کی بنیاد رکھی اور عمر بھر اس کی قیادت کرتے ہوئے مزدوروں، مظلوموں اور کسانوں کے حقوق کے لیے مثالی جدوجہد کی۔
انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے نظریات سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ مفلسی اور تنگدستی کے دن گزارے، مگر آبرومندانہ زندگی گزاری۔
ملک دوست محمد بھچر ایک عملی کام کرنے والے کامریڈ تھے، جو سرائیکی وسیب کی محرومیوں کو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ اس خطے کی ترقی اور شعور کی راہ میں صرف عالمی سرمایہ دارانہ نظام ہی نہیں، بلکہ مقامی جاگیردارانہ سماج بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے، جو عوام کو زندگی کے شعور سے آشنا نہیں ہونے دیتا۔
قصبہ واں بھچراں میں، جہاں وہ کسانوں کو بیدار کرنے کی مہم چلا رہے تھے، وہاں سے میانوالی کے خوانین اور کالاباغ کے نوابوں کے ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کرنا بھی ان کی جدوجہد کا حصہ تھا۔
’میانوالی کی مزاحمتی تحریکیں‘ کے مصنف سید صادق حسین شاہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’مزدور کسان پارٹی کی وجہ سے میانوالی میں پہلی بار مڈل کلاس کے نمائندوں کو ووٹ ملنا شروع ہوئے۔
اس سے پہلے صرف جاگیردار اور سرمایہ دار ہی اسمبلی کے ممبر بنتے تھے۔ بشیر ایڈووکیٹ، صداقت اللہ خان ایڈووکیٹ، ڈاکٹر شیر افگن اور مولانا عبدالستار نیازی سب مڈل کلاس کے نمائندے تھے۔ مقبول احمد خان نیازی، ڈاکٹر شیر افگن اور مولانا عبدالستار خان نیازی کی کامیابی میں مزدور کسان پارٹی کا نمایاں کردار تھا۔ جب جب نئی قیادت ابھری، پرانے سیاسی خانوادوں کی زنجیر ٹوٹ گئی۔‘
ملک دوست محمد بھچر، جو بائیں بازو کی سیاست کے سرگرم علمبردار تھے، کئی کئی میل پیدل چل کر عوام تک اپنا انقلابی منشور پہنچاتے۔ انہیں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ شاہی قلعے سمیت ملک بھر کی جیلوں میں بند رہے، مگر اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔
حبیب جالب نے انہیں خراجِ تحسین یوں پیش کیا؛
دشتِ بے چارگاں، یارِ محنت کشاں
دوست محمد بھچر تھا، زندگی کا نشاں
معروف کامریڈ میجر اسحاق نے اپنی دو کتابیں ’قفس‘ اور ’مُصلی‘ ان کے نام منسوب کیں۔
1974 میں جب مزدور کسان پارٹی اپنے عروج پر تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی زرعی اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے پارٹی قیادت سرگرم عمل تھی، تو جاگیردار طبقے نے بیوروکریسی اور پولیس کے ذریعے پارٹی کو دبانے کی سازشیں شروع کر دیں۔
ان دنوں میانوالی میں چیمہ نامی پولیس آفیسر تعینات تھا، جسے یہ ہدف دیا گیا تھا کہ ملک دوست محمد بھچر اور ان کے ساتھیوں کو ’سبق‘ سکھایا جائے۔
اسی دوران، پارٹی کے سربراہ میجر اسحاق واں بھچراں میں ایک جلسے میں شرکت کے لیے آ رہے تھے، جسے سبوتاژ کرنے کے لیے ایس پی اشرف چیمہ اور علاقہ مجسٹریٹ ملک ممتاز جھکڑ نے مشترکہ منصوبہ بنایا۔
جیسے ہی واں بھچراں میں ملک حاکم کی حویلی میں جلسہ شروع ہوا، ایس پی چیمہ پولیس نفری کے ہمراہ پہنچ گیا اور جلسے کو زبردستی منتشر کر دیا۔ کارکنوں پر تشدد کیا گیا، مگر ملک دوست محمد بھچر نے نہ صرف مزاحمت کی بلکہ ایس پی کا گریبان پکڑ لیا۔ کارکنان نے رضاکارانہ گرفتاری دی، لیکن پولیس نے منتخب افراد کو نشانہ بنایا اور ملک دوست محمد بھچر کو غنڈہ ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے دوبارہ پابندِ سلاسل کر دیا۔
اس واقعے کے بعد، ملک دوست محمد بھچر مقامی مزاحمت کی علامت بن کر ابھرے۔
ان کے ساتھی ملک عالم شیر بھچر ایک واقعہ بیان کرتے ہیں ’ایک روز ملک دوست محمد میانوالی جا رہے تھے۔ راستے میں پولیس اہلکار سڑک پر ناکہ لگا کر گاڑیوں کی تلاشی لے رہے تھے۔ ایک عمر رسیدہ ڈرائیور کو گاڑی سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ملک دوست محمد نے آگے بڑھ کر پولیس کو روکا اور کہا: ’یہ شخص جو عمر کے آخری حصے میں بھی محنت مزدوری سے رزق کما رہا ہے، اس کی توہین کرنا بہت گھٹیا حرکت ہے۔‘ پولیس اہلکار، ان کے دباؤ میں، ڈرائیور کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
ملک دوست محمد کسانوں اور مزدوروں کی حقیقی جدوجہد میں اس قدر مصروف ہو گئے کہ اپنی خانگی زندگی کی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی والدہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ سسرال والوں سے کبھی بھی نہ بن سکی، اس کی وجہ بھی شاید گھر، بیوی اور بچی کو وقت نہ دے سکنا تھا۔
ملک عالم شیر بھچر کے مطابق ’سسرال والوں سے اختلافات کے بعد ملک دوست محمد نے زندگی تنہا گزاری۔ بیوی میکے چلی گئی، بیٹی کا انتقال ہو گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مالی معاملات میں عالم شیر کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے خودداری کا دامن کبھی نہ چھوڑا، مال و زر کو اپنا مسئلہ نہ بنایا۔ آسودہ حال دوست کبھی کبھار ان کی خفیہ مدد کر دیتے تھے۔ ان کی مستقل آمدنی نہیں تھی۔ عام آدمی کے لیے ان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرانسپورٹ مالکان کرایہ نہیں لیتے تھے۔ سادہ خوراک و لباس ان کا معمول تھا۔ بیماری کے دوران اپنے پیسوں سے دوا خریدتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے جب تک زندہ ہوں، کسی کا احسان نہیں اٹھاؤں گا۔‘
ان کے ایک اور ساتھی خان محمد خنا کے مطابق ملک دوست محمد ڈی سی میانوالی سے ملاقات کے لیے گئے تو پاؤں میں عام نوعیت کی پلاسٹک کی چپل پہنی ہوئی تھی۔ ساتھیوں نے کہا ملک صاحب، اتنے بڑے آفیسر کے پاس جا رہے ہیں تو کم از کم ظاہری حلیہ بہتر کر کے جائیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ جس قوم کے پاس اچھا لباس، مناسب خوراک اور سر ڈھانپنے کے لیے چادر نہ ہو، اس کے لیڈروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ سرکاری ملازموں کے پاس بن ٹھن کر جائیں۔ ہم بیوروکریسی کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ وہ غریب عوام کی حالت پر رحم کھائیں۔ نامور سیاستدان ڈاکٹر شیر افگن انہیں اپنا سیاسی استاد تسلیم کرتے تھے۔
سرائیکی وسیب میں ترقی پسندی کا معتبر حوالہ، اپنی آخری سانس تک اس وسیب کے کسانوں اور مزدوروں کی جنگ لڑتا رہا اور اس یقین کے ساتھ اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا کہ ایک وقت آئے گا اور اس خطے کے عام آدمی کو سیاست سمیت ہر شعبے میں آگے آنے کا بھرپور موقع ملے گا۔
انہیں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں کسانوں اور مزدوروں کی بے مثل جدوجہد پر صدارتی ایوارڈ اور کیش پرائز دینے کے لیے کہا گیا، مگر انہوں نے یہ کہہ کر یہ پیش کش ٹھکرا دی کہ میں اپنی جدوجہد بھری زندگی کی قیمت نہیں لگوانا چاہتا۔
سرائیکی وسیب کا یہ سپوت فالج کے حملے سے دو سال لڑتا رہا اور بالآخر 18 اپریل 1996 کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔