ہم لوگوں پر نظر رکھتے ہیں ان کی فکر نہیں کرتے

ہم ہی میں سے کئی لوگ اپنی زندگی میں ایسی جنگیں لڑ رہے ہیں جس کی سماج تو کیا دوسرے کمرے میں موجود بہن بھائی، والدین، ساس سسر، شوہر، بیوی، بچوں کو بھی نہیں معلوم کہ ان کا قریبی رشتہ کس طرح کے حالات اور سوچوں سے نبردآزما ہے۔

حمیرا اصغر کے انسٹاگرام پر 30 اپریل 2024 کی تصویر (انسٹاگرام، حمیرا اصغر)

پچھلے تین چار دن سے ایک خبر میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پوش علاقے کے ایک فلیٹ سے ایک خاتون کی بوسیدہ لاش برآمد ہوئی۔ خاتون کی شناخت حمیرا اصغر علی کے نام سے ہوئی جو اداکارہ اور ماڈل تھیں۔

سوشل میڈیا پر کچھ روز قبل پاکستانی ٹی وی آرٹسٹ 76 سالہ عائشہ خان کی موت کی خبر بھی آئی تھی جو جون میں گلشن اقبال میں قائم اپنے فلیٹ میں مردہ حالت میں پائی گئیں۔ فلیٹ سے بدبو آنے پر پڑوسیوں نے پولیس کو اطلاح دی جس کے بعد معلوم ہوا کہ عائشہ خان کے انتقال کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔

ان دونوں واقعات کے بعد اس بحث نے زور پکڑ لیا ہے کہ ان کے رشتے دار، دوست، ساتھی، کولیگ اور دوسرے جاننے والوں نے ان سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ ان کے پڑوسیوں کو اس بات کا علم کیوں نہیں ہو سکا؟ ان کے گھر کام کرنے والے ملازم کہاں تھے؟

حمیرا اصغر کی پراسرار موت پر سوشل میڈیا پر آنے والے تبصروں کا اگر جائزہ لیں تو بیشتر ایسی موت کو خاندان سے دوری اور تنہائی پسندی کی عادت سے جوڑ رہے ہیں۔

ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر بےشمار دوست رکھتے ہیں ان میں سے کچھ جان پہچان کے تو اکثریت اجنبیوں کی ہو گی۔ ان پلیٹ فارمز نے ہمیں اپنوں سے زیادہ اجنبیوں پر بھروسہ کرنا سکھایا۔ اس کی وجہ ان سے ملنے والی وہ ستائش یا رائے ہے جو ہم کبھی بھی اپنے رشتے داروں یا دوستوں سے نہیں لے پائے یا لینا نہیں چاہتے کیونکہ وہ ان جگہوں سے مل جاتی ہے۔

لیکن اس کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں ستائش کے ساتھ ساتھ نفرت بھی ملتی ہے جو کسی بھی نارمل انسان کی ذہنی صحت کو تہس نہس کر سکتی ہے۔

بظاہر بہت سارے دوستوں کے جھنڈ لیے بنے یہ فیس بک، انسٹا گرام، سنیپ چیٹ، واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز کے باوجود ہم ہی میں سے کئی لوگ اپنی زندگی میں ایسی جنگیں لڑ رہے ہیں جس کی سماج تو کیا دوسرے کمرے میں موجود بہن بھائی، والدین، ساس سسر، شوہر، بیوی، بچوں کو بھی نہیں معلوم کہ ان کا قریبی رشتہ کس طرح کے حالات اور سوچوں سے نبردآزما ہے۔

کتنے ہی لوگ سوشل میڈیا پر بلیک میل ہو کر بےخوابی میں مبتلا ہوں گے تو کوئی لائیکس، سبسکرائبرز کم ہونے کا غم دل پر لگائے بیٹھے ہوں گے۔ کتنے ہی لوگ اپنے بچپن یا جوانی میں ہونے والے ناخوشگوار حادثات کے ٹراما سے لڑ رہے ہوں گے۔ کتنے ہی خوش نظر آنے والے اور خوش لباس لوگ سٹریس، اینگزائٹی، ڈپریشن سے لڑ رہے ہوں گے اور نیند یا اینٹی ڈپریسنٹ کی گولیاں پھانک کر چند گھنٹوں کی پر سکون نیند کی خدا سے بھیک مانگتے ہوں گے۔ لیکن ان کے اگر سوشل میڈیا اکاونٹس چیک کیے جائیں تو ان سے بہتر اور پر رشک زندگی کسی کی نہیں ہو گی۔

میں نے کبھی فنکشنل ڈپریشن کا نام نہیں سنا تھا لیکن اس سے واقفیت تب بڑھی جب ایک شخص کی اچانک موت پر یہ لفظ سنا۔ جب میں نے ایک ماہر نفسیات سے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تب مجھے اندازہ ہوا کہ ڈپریشن کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس میں انسان روزمرہ کے تمام کام سرانجام دے رہا ہوتا ہے اس کے اردگرد کے لوگوں کو یہ شائبہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ شخص کس کرب سے گزر رہا ہے، معلوم تب ہوتا ہے جب وہ گزر جاتا ہے۔

مالز میں موجود مہنگے برانڈ سے سوچے سمجھے بغیر خریداری، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب آپ کا سوشل سرکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو لوگ آپ کے اردگرد ہیں انہیں بھی آپ کی یاد تب آئے جب ان کی کوئی ضرورت یا کام آپ سے جڑا ہو اور ایسا شخص پھر بھی مہنگے کپڑے، پرفیوم خرید رہا ہو جو گھر سے باہر نکلے تو اس کے کپڑے شکن آلود ہو وہ اپنا ڈپریشن، جذباتی خریداری (impulsive buying) کے ذریعے کم کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی ایسے لوگوں پر غور کیا ہے؟ نہیں کیا تو اب کیجیے گا کیونکہ یہ بھی کوئی نارمل رویہ نہیں ہے۔ لیکن ہم ہی لوگ ایسے افراد کو کہتے ہیں ارے وہ اسے تو پیسہ اڑانے کا شوق ہے بہت ہی کوئی فضول خرچ ہے۔

اسی طرح سماج میں اگر کوئی عورت یا مرد تنہا زندگی گزار رہے ہوں تو ہم جیسے لوگ اس پر نظر تو بھرپور رکھتے ہیں لیکن فکر نہیں کرتے۔ اس پر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر سامنے والا آپ سے بات چیت نہ رکھنا چاہے تو ہم کیوں اس پر مسلط ہوں؟

جواز درست ہے لیکن بطور سماج اگر کسی کی بھی موت پر رائے قائم کرنا ہمارا حق بن ہی چکا ہے تو بحیثیت انسان ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی ایسا فرد ہمارے اردگرد بستا ہے تو اس سے کبھی نہ کبھی موقع دیکھ کر ہنس کر سلام دعا کر لی جائے، عید تہوار پر اسے پوچھ لیا جائے۔ کچھ نہیں تو گھرمیں پکا ہوا کوئی بھی کھانا ایک اچھا بہانہ ہو سکتا ہے جو اس کے گھر کے دروازے پر دستک دے سکے۔

اگر اس فرد کا کوئی نمبر پڑوس میں کسی کے پاس ہے تو وہ اس کو کبھی کبھی خیریت دریافت کرنے کے لیے رابطہ کر لے۔

یہ کیوں ضروری ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے نیٹ فلکس پر ایک مووی موجود ہے جس کا نام ہے ’اے مین کالڈ اوٹو۔‘ یہ ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی ہے جو بیوی کے مرنے کے اگلے چھ ماہ میں کئی بار خودکشی کی کوشش کرتا ہے لیکن ہر بار اس لیے بچ جاتا ہے کہ اس کے پڑوس میں آباد ایک گھرانہ اسی وقت اس سے کچھ مانگنے یا مدد کے لیے اس کو ایسی کارروائی کرنے سے روک دیتا ہے۔

یہی پڑوسی آئے روز اسے کھانا بھیجتے ہیں تو کبھی ایسے ہی ہیلو ہائے کرتے رہتے ہیں جس سے انھیں یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ یہ بوڑھا شخص کس ذہنی دباؤ اور مایوسی کی کیفیت سے گزر رہا ہے۔

پڑوسیوں کا اسے یہ احساس دلانا کہ وہ چڑچڑے پن کے باوجود ان کے لیے اہم ہے اسے اس کیفیت سے نکالنے اور زندگی میں واپس آنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

بطور انسان ہمیں دوسرے انسان کی زندگی میں جھانکنے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس عادت پر قابو پا لیتے ہیں تو کچھ اس سے مجبور رہتے ہیں، لیکن اب جس دور میں ہر شخص اکیلا اور ہاتھ میں موبائل فون اس کی دنیا ہے لوگوں کو سمجھنا اور ان پر غور کرنا اتنا بھی مشکل نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کسی کی زندگی میں مداخلت آپ کا حق نہیں، نہ ہی بےوجہ کی بات چیت جس سے اگلا پریشان ہو جائے۔ لیکن بطور پڑوسی، رشتے دار، دوست اپنے اردگرد کی خبر رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ شاید کوئی کسی مشکل وقت میں آپ کی مدد کا منتظر ہو، آپ کی ایک کال، دروازے پر دستک یا صرف یہ پوچھ لینا کہ آپ ٹھیک ہیں؟ اسے یہ احساس دلا دے کہ وہ تنہا نہیں ہے کوئی ہے جو اس کی فکر کرتا ہے اسے مکمل طور پر نہ سہی لیکن عارضی طور پر کوئی سکون یا راحت دے سکے۔

یہاں سوال اکیلے رہنے یا ساتھ رہنے کا نہیں یہاں خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی کی خبر گیری رکھنا، کچھ دیر گفتگو کرنا، کال یا ٹیکسٹ میسیجز، وائس نوٹس یا پھر کچھ لمحے نکال کر ملاقات کرلینا سوشل میڈیا پر مہنگے کپڑے، گاڑی، پارٹی کے شو آف سے زیادہ مشکل ہے؟

جی ہاں مشکل ہے کیونکہ سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا آپ کے برے وقت کی ساتھی نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے آپ کو اپنے سے جڑے لوگوں کی خبر رکھنا ہو گی جو کہ عمل اور آپ کا وقت مانگتا ہے۔

اگر سوشل میڈیا کسی کا ساتھی بن سکتا یا آپ کو اپنے قریبی رشتوں کا صحیح معنوں میں حال بتا سکتا تو حمیرا اصغر کے انسٹاگرام اکاونٹ جہاں لگ بھگ سات لاکھ فولوورز ہیں وہاں ان کی آخری پوسٹ ستمبر پر نہ رک جاتی۔

اگر کوئی ان کی خبر رکھنے والا ہوتا تو وہ بھانپ جاتا کہ روز کچھ نہ کچھ پوسٹ کرنے والی اتنی فعال اداکارہ کہاں غائب ہیں اور کیا کر رہی ہیں کہیں وہ کسی مشکل میں تو نہیں؟ انہیں کسی مدد کی ضرروت تو نہیں؟

کسی نے صحیح کہا ہے کہ اس دنیا میں جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ نظر آتا نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ