حمیرا اصغر کی زندگی پر فلم بناؤں تو۔۔۔

اگر میں حمیرا اصغر پر فلم بناؤں تو اس میں مرکزی کردار تنہائی ہو گی۔ ولن یا ہیرو کا کیا کام۔ مختصر سی فلم میں ایک دروازہ ہو گا، کئی دن سے دستک کا منتظر دروازہ۔

اداکارہ اور ماڈل حمیرا اصغر علی 22 دسمبر، 2022 کو انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دے رہی ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

اگر روحی بانو پر فلم بنتی تو حمیرا اصغر مرکزی کردار کے لیے ایک بہترین انتخاب ہوتیں۔

’کوئین آف میلینکولی‘ کے نام سے مشہور روحی بانو نے نفسیات میں ایم اے کیا تھا لیکن کبھی اپنی نفسیاتی گرہیں نہ کھول سکیں۔

کہاں وہ عروج کہ ٹی وی سکرینوں پر ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا، وقت بدلا اور وہ لاہور کی گلیوں میں سارا دن دکھ کے کنکر چنتیں، کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔

2005 میں روحی بانو کے بیٹے علی رضا کا قتل ہوا، کچھ عرصے بعد ان کی والدہ اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئیں اور اس حال میں کہ لاش جلی ہوئی تھی۔ یہاں سے بس روحی بانو ’زرد گلاب‘ بن کر رہ گئیں۔

آج ہی میں حمیرا اصغر کا انڈپینڈنٹ اردو کو 2022 میں دیا گیا انٹرویو سن رہا تھا جس میں وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے تھیٹر کے 40 سے زائد ڈراموں میں حصہ لیا۔

روحی بانو نے تو ٹی وی کو 40 سال دیے تھے، 40 سال جب ٹی وی کی ٹوٹل عمر 50 برس سے زیادہ نہ تھی۔

حمیرا نے آرٹس میں ڈگری لینے کے بعد والدہ سے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کی تمام پڑھائی آرٹس کی ہے اس لیے انہیں ماڈلنگ کرنے دی جائے۔

جب مارگلہ کی پہاڑیوں پر آگ بھڑک اٹھی تو اس میں حمیرا کا نام چل نکلا تھا۔

اپنے اسی انٹرویو میں وہ کہتی ہیں کہ ’لوگوں کو صرف میرا نام پتہ تھا چہرہ نہیں۔ میں اتنے عرصے سے اسلام آباد نہیں آئی تھی نہ اس معاملے سے لینا دینا تھا۔ مجھے اس سارے واقعے سے کافی مایوسی ہوئی۔‘

ان کی فلیٹ میں موت کا سن کر ذہن پروین بابی کی طرف جاتا ہے۔ ان کے پڑوسیوں نے پولیس سے شکایت کی تھی کہ بازو والے فلیٹ سے بدبو آ رہی ہے اور کئی دن یہ کھلا نہیں۔

پولیس نے جا کر دیکھا تو پروین مردہ حالت میں پڑی تھیں۔ لاش تین دن پرانی تھی۔

پروین کی زندگی کی ایک خوف ناک جھلک دیکھنی ہو تو ان کے دوست اور مشہور ہدایت کار مہیش بھٹ کا سنایا ہوا واقعہ یاد کریں۔

مہیش کے بقول ’میں نے اسے صبح میک اپ لگا کر شوٹنگ پر جاتے دیکھا اور جب شام کو واپس آیا تو وہ ایک کونے میں کانپ رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کوئی مجھے مار دے گا۔‘

پروین کو کسی نے نہیں مارا، انہیں ان کی تنہائی اور نفسیاتی بیماریوں نے آہستہ آہستہ کھا لیا۔

خیر تین دن بعد تو ان کی لاش اٹھا لی گئی تھی۔ یہاں حمیرا کی لاش اتنی پرانی ہو چکی تھی کہ فرانزک ٹیسٹ ہونے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔

لیکن روحی بانو کا دکھ ہم دیکھ سکتے تھے، انہیں سنبھالنے کے لیے چار لوگ موجود تھے۔ وہ استنبول علاج کے لیے اپنی بہن کے پاس جا سکتی تھیں اور کچھ نہیں تو ان کی لاش وصول کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی موجود تھا۔

حمیرا کی تو لاش وصول کرنے کے لیے بھی کوئی موجود نہیں۔ اگر میں ان پر فلم بناؤں تو اس میں مرکزی کردار تنہائی ہو گی۔

ولن یا ہیرو کا کیا کام۔ مختصر سی فلم میں ایک دروازہ ہو گا، کئی دن سے دستک کا منتظر دروازہ۔ وہ کیا شعر ہیں حافی کے:

تنہائی میں خود سے باتیں کرنی ہیں

میرے منہ میں جو آئے گا بولوں گا

ساری عمر اسی خواہش میں گزری ہے

دستک ہو گی اور دروازہ کھولوں گا۔

پتہ نہیں انہوں نے کبھی ’ڈپریشن‘ کا لفظ استعمال کیا یا نہیں، میں نے تو پہلی بار ابھی اس کا نام سنا۔

ہمارے کچھ دوست کہتے ہیں، ’ڈسپریشن‘ یہ ڈپریشن سے آگے کی چیز ہے۔

حمیرا پہ بنی فلم میں ایسا کوئی لفظ ہو گا نہ گہری باتیں۔ بس خاموشی، طویل اور کبھی نہ ختم ہونے والی خاموشی۔

یہ فلم لفظوں میں نہیں، چیزوں میں بولے گی۔ بس بند دروازہ ہو گا، کوئی جھیت نہیں جس سے اندر باہر دیکھا جا سکے۔

ایک ہیئر برش ہو گا جس میں بالوں کے گچھے پھنسے ہوں گے۔ ایک موبائل جس میں کوئی سم ہے نہ انٹرنیٹ۔

ایک ڈائری جس کے تمام صفحات خالی ہیں، آخر میں ایک جگہ سرخ خون سے لکھا ہو گا، ’میں ایک پنکھ ہوں، جسے کبھی کسی نے جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تنہائی کو شاعری بنتے ہم نے بہت پڑھا، اس موضوع پر کیسے کیسے شاہکار ناول لکھے گئے۔ تنہائی راگوں میں ڈھلی اور کیسی درد ناک موسیقی ترتیب پائی۔

مگر اس فلم میں تنہائی بدبو پیدا کرے گی، خراب دودھ کی، بند کھڑکیوں کی اور ان سانسوں کی جو چور کی طرح آہستہ آہستہ لی جا رہی تھیں۔

اس فلم میں ان دوستوں کو بھیانک نہیں دکھایا جائے گا جو مشکل وقت میں ساتھ نہ تھے۔

بس ذرا سی جھلک ہو گی کہ کیسے زندگی اپنی رفتار میں چلتی رہتی ہے، دوست، رشتہ دار محبت کا دم بھرنے والے سب رفتہ رفتہ سلپ ہوتے جاتے ہیں۔

فلم میں ماں باپ بھائی بہن سب رشتہ دار ہوں گے مگر باپ کو زیادہ فوکس کیا جائے گا۔

باپ جس نے کہا کہ وہ اب میری بیٹی نہیں رہی، شاید اس کے گھر میں، کمرے کی کسی دیوار پر یا دل کے کونے میں ایسی تصویر لٹکی ہو جس میں حمیرا، چار سال کی حمیرا اس کے کندھوں پر چڑھی ہے۔

باپ سب کے سامنے کہے گا وہ میری بیٹی نہیں، رات کو کھیس میں یہ تصویر دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا۔

باپ لاکھ انکار کرے مگر شاید دل میں کچھ رہ گیا ہو، کچھ، جو لفظوں میں نہیں آتا۔

اس فلم میں کوئی نجات دہندہ ہو گا نہ نجات۔ ہم حمیرا کو آخری بار دیکھیں گے، وہ چائے کا کپ گرم کرے گی، سگریٹ سلگائے گی اور کمرہ دھوئیں سے بھر جائے گا۔

کچھ دیر بعد آگے شعلہ بھڑکے گا اور پھر اندھیرا، پھر دروازہ، دستک کی تمنا، ازلی تنہائی اور ابدی خاموشی۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی فن