پروین بابی: جب ڈپریشن اور زوال کسی سے رومانس کا سبب بنے

آج جب فلمی دنیا میں اداکار اور اداکارائیں ذہنی دباؤ، تھکن اور علاج کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں، یہ بھی پروین بابی جیسے لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے سب کچھ کھو کر ہمیں یہ سچ دکھایا۔

بالی ووڈ اداکارہ پروین بابی بمبئی میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کے دوران اس نامعلوم فائل فوٹو میں نظر آ رہی ہیں۔ بالی ووڈ اداکارہ پروین بابی اگست 2002 میں بمبئی میں اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس کے دوران اس نامعلوم فائل تصویر میں نظر آرہی ہیں۔ بالی ووڈ اداکارہ اور ماضی کی سنسنی خیز بابی ہفتے کے روز جوہو میں اپنے فلیٹ میں پراسرار حالات میں مردہ پائی گئی تھیں (روئٹرز)

ڈریم گرل ہیما مالنی، ریکھا، زینت امان، پروین بابی، رینا رائے، راکھی، شبانہ اعظمی اور سمیتا پاٹِل یہ سب وہ خوبصورت اداکارئیں ہیں جو 1970 اور 1980 کی دہائی میں چھائی ہوئی تھیں۔

ان میں سے آج ذرائع ابلاغ پر سب سے زیادہ تذکرہ بولڈ اینڈ بیوٹی فل پروین بابی کا ہوتا ہے۔ ان کی ذہنی بیماری، بولڈ زندگی اور پراسرار موت ایک مسلسل رومانس ہے جو ختم ہی نہیں ہوتا۔

بالی وڈ میں ہیروئن کا روایتی تصور نزاکت آمیز تھا، ناک، آنکھیں اور چہرے کے خد و خال ایسے ہوں کہ جیسے ملائی سے بنایا گیا ہو۔

سوائے نرگس کے کم و بیش ساری اداکارائیں اسی طرح کی تھیں۔ نزاکت کیا، نرگس پر تو حسن کی پرچھائی تک نہ پڑی تھی، جدن بائی کے تعلقات اور سوشل سرکل نہ ہوتا تو نرگس، بالی وڈ سے دور ہی رہتیں۔

نازک اندام سمارٹ ہیروئن کا تصور بدلنے میں پروین بابی کا بڑا اہم کردار ہے۔ ایک بھرپور خاتون، جیسی پنجابی فلموں کی جٹیاں ہوتی ہیں۔

آپ وحیدہ رحمٰن کے انٹرویو سنیں، وہ بتاتی رہتی ہیں کہ میں نے گرودت سے کہا کہ میں ایسے کپڑے نہیں پہنوں گی، یہ سین نہیں کرنا یہ بولڈ اور خراب ہے، وغیرہ۔

مینا کماری نے اپنی مے نوشی سے ایسے تصورات کو پاش پاش کیا۔ مینا جی انتہائی معمولی پس منظر سے تعلق رکھتی تھیں۔

مینا کماری والا کام پروین بابی نے بھی کیا، مگر پروین اشرافیہ ٹائپ پس منظر رکھتی تھیں۔ اس مخصوص پس منظر کی خواتین کے لیے سگریٹ پینا معمولی بات ہے۔ سگریٹ نوشی ہی پروین بابی کے لیے پہلی سیڑھی ثابت ہوئی۔

گزارہ موافق فلم ساز اور ہدایت بی آر اشارہ نے ایک بار کسی جگہ ایک لڑکی کو سگریٹ پیتے دیکھا۔ وہ ایک ایسے ہی سکرپٹ پہ کام کر رہے تھے۔ انہیں لگا مرکزی کردار کے لیے بس مجھے یہی لڑکی چاہیے۔

پروین بابی تک کچھ ماڈلنگ وغیرہ شروع کر چکی تھیں۔ اشارہ نے معروف کرکٹر سلیم درانی کے ساتھ اپنی فلم ’چرتر‘ پروین کو لاسٹ کر لیا۔ لو جی ایک اور ہیروئن میدان میں آ چکی تھی۔

پروین کی  شہرت اینگری ینگ مین امیتابھ بچن کے ساتھ ایک کے بعد ایک فلم کرنے سے آسمان پہ پہنچی۔ ’مجبور‘ سے آغاز کیا، پھر ’دیوار‘، ’امر اکبر انتھونی‘، ’شان‘ اور ’کالیا‘ جیسی کامیاب فلمیں میں شراکت داری کی۔ ان میں سے زیادہ تر فلمیں چلیں، ایک آدھ فلاپ بھی ہو گئی۔

اپنے عہد میں پروین بابی جتنی بھی پاپولر ہوئی مگر وہ دوچار یا پانچ سات فلموں کی اداکارہ تھی۔ ان کے پاس نہ ہیما مالنی کا حسن تھا نہ سمیتا پاٹِل کی اداکاری کہ بندہ پاگل ہو کر داد دینے لگے۔ البتہ ان کی زندگی میں اتنی پراسراریت ہے کہ وہ برابر دلچسپی کا موضوع رہتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی افسوس ناک موت کو 20 سال پورے ہوئے ہیں، ایک بار پھر میڈیا ان کی زندگی کے راز جاننے کے لیے لمبے لمبے پروگرام کر رہا ہے۔ ہمیں کوئی راز تو نہیں جاننا لیکن ایک پرستار کے طور پر ان کا ذکر ضروری خیال کرتے ہیں۔

چند روز پہلے شبانہ اعظمی نے ایک ایسا واقعہ یاد کیا جو آج تک ان کے ذہن میں نقش ہے۔ فلم ’جوالا مکھی‘ کے سیٹ پر ایک دن پروین بابی نے اچانک چھت کی طرف دیکھا اور چیخنے لگیں، ’یہ جھومر میرے اوپر گرنے والا ہے!‘ شبانہ اعظمی کہتی ہیں، ’میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے پروین کو پاگل ہوتے دیکھا۔‘

یہ واقعہ کوئی انوکھی مثال نہیں۔ فلم ’شانتی‘ کے سیٹ پر بھی پروین کے رویے میں یہی عجیب و غریب چیز دیکھی گئی۔ شبانہ کے بقول، ’وہ دو انگور کھاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میرا پیٹ بھر گیا ہے۔‘

اس انٹرویو میں شبانہ اعظمی نے ایک اعتراف کیا ہے کہ ہم سب جانتے تھے یہ ذہنی بیماری ہے  مگر ’ہم نے اس پر کبھی بات نہیں کی۔‘  فلمی دنیا میں جس کا دار و مدار چمک دمک، خوبصورتی اور کامیابی پر ہے، وہاں ذہنی صحت جیسے معاملات کو نظر انداز کرنا عام بات تھی۔

آپ دیکھیں کہ کیسے بڑے بڑے سیٹ لگتے تھے، ایک ایک فلم پر ہزاروں لاکھوں روپے اڑائے جاتے رہے مگر ذہنی بیماریوں کے علاج کا کوئی سسٹم نہیں تھا۔ شاید پوری دنیا میں اسی طرح ہو۔

پروین بابی صرف خوبصورتی کی علامت نہیں تھیں، وہ ایک گہری سوچ رکھنے والی شخصیت بھی تھیں۔ وہ اکثر روحانیت، فلسفے اور کتابوں پر بات کرتی تھیں۔ شبانہ اعظمی کے مطابق، ’وہ ادراک کی تلاش میں تھیں، جو شاید آسانی سے اس کے لیے میسر نہ تھا، لیکن وہ سچائی تک پہنچنے کی جد و جہد کرتی رہیں۔‘

ممکن ہے یہی اندرونی کشمکش، اپنی ظاہری شخصیت سے بالاتر کچھ بننے کی خواہش، ان کی ذہنی حالت کو مزید الجھا رہی تھی۔

پروین کے ذہنی مسائل کے وقتوں میں کبیر بیدی سے ان کا گہرا یارانہ تھا۔ کبیر کے بقول، ’جب وہ اٹلی اور لندن کے سفر پر تھے تو پروین کی حالت مزید خراب ہو چکی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ مسلسل بگڑ رہی ہیں۔ میں نے انہیں علاج کا مشورہ دیا، مگر وہ بالکل تیار نہیں تھیں۔‘

کبیر کے مطابق، پروین کو ڈر تھا کہ اگر کسی کو پتا چل گیا کہ وہ کسی ڈاکٹر سے علاج کروا رہی ہیں تو ان کا فلمی کیریئر ختم ہو جائے گا۔ اسی خوف نے ان کے تعلقات کو بھی متاثر کیا۔ ’پروین نے مجھے اس لیے چھوڑا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ میں ان پر علاج کے لیے دباؤ ڈالوں گا۔‘

کبیر نے ان افواہوں کی بھی تردید کی کہ ان سے جدائی نے پروین کو ذہنی بیماری میں دھکیلا۔ ’سچ یہ ہے کہ پروین پہلے ہی ذہنی مسائل کا شکار تھیں، میڈیا نے صرف مجھے قصوروار ٹھہرایا۔‘

یہ کبھی کوئی نہیں جان سکے گا کہ کبیر کی باتوں میں کس قدر حقیقت ہے۔ خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔ دونوں کا قصہ بہت اچھالا گیا۔ میڈیا کو ایسا کرسپی موضوع چاہیے ہوتا ہے۔

کبیر بیدی کی طرح مہیش بھٹ کو بھی اکثر مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

وہ پروین کا ایک واقعہ سناتے ہیں، ’میں نے اسے صبح میک اپ لگا کر شوٹنگ پر جاتے دیکھا، اور جب شام کو واپس آیا تو وہ ایک کونے میں کانپ رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کوئی مجھے مار دے گا۔‘

مہیش بھٹ کے مطابق، پروین کو شیزوفرینیا تھا، ایک ایسی ذہنی بیماری جس میں انسان حقیقت سے کٹ جاتا ہے، پھر وہم اور خوف اس کی زندگی پر حاوی ہونے لگتے ہیں۔

پروین بابی کی موت بھی ویسی ہی افسوسناک تھی جیسی ان کی زندگی کے آخری سال۔ وہ ممبئی کے اپنے فلیٹ میں اکیلی رہتی تھیں اور ان کی لاش تین دن بعد اس وقت ملی جب پڑوسیوں نے پولیس کو شکایت کی۔

ایک بندہ جو خود بیمار ہے، وہ بیماری کو سنجیدگی سے لے ہی نہیں سکتا۔ بہت سی باتیں جو سننے والوں کے لیے محض جوک ہوتی ہیں، جس پہ بیت رہی ہو اسے کاٹ کے ادھ مویا کر رہی ہوتی ہیں۔

ایک بار پروین بابی نے دعویٰ کیا کہ سی آئی اے اسے مارنے کی سازش کر رہی ہے۔ یہ  ایک واضح علامت تھی کہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

آج جب فلمی دنیا میں اداکار اور اداکارائیں ذہنی دباؤ، تھکن اور علاج کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں، یہ بھی پروین بابی جیسے لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے سب کچھ کھو کر ہمیں یہ سچ دکھایا۔

شہرت، خوبصورتی اور کامیابی ایسے خواب ہیں جو ہر شخص دیکھتا ہے، مگر جسے یہ سب میسر ہو، پھر بھی اس کے زخم مندمل نہ ہو سکیں؟ یہ ایک رومانوی رویے کا جنم ہوتا ہے۔ ہم پروین بابی کو آج ان کی فلموں کی وجہ سے یاد نہیں کرتے، ان کی زندگی سے جڑی ٹریجڈی ہی ان سے وابستہ رومانس کی بنیاد بنتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ