یورپ میں عہد وسطیٰ کے خاتمے کے بعد متوسط طبقے کی تشکیل ہوئی۔ اس نے سیاست، تجارت، تعلیم اور سائنس میں نئے نظریات اور ایجادات پیدا کیں۔ برصغیر ہندوستان میں متوسط طبقے کا وجود برطانوی دورِ حکومت میں ظہور پذیر ہوا۔ اس طرح ہندوستانی طبقہ برطانوی حکومت کی نگرانی میں تھا، جبکہ یورپ کا طبقہ آزاد تھا۔
قدیم یورپ میں کلیسا اور امرا دو طبقے ہوا کرتے تھے، بقیہ معاشرہ عام لوگوں میں تقسیم تھا۔ عہد وسطیٰ تک کوئی متوسط طبقہ نہیں تھا۔ انگلستان میں صنعتی انقلاب کی وجہ سے سرمایہ داروں کا طبقہ وجود میں آیا اور اسی نے متوسط طبقے کی شکل اختیار کی۔ امرا کا طبقہ چونکہ طاقتور اور مراعات یافتہ تھا، اس لیے متوسط طبقے نے سیاست میں حصہ لے کر پارلیمان میں اپنے نمائندوں کو بھیجنے کی مہم شروع کی۔
اب تک ووٹروں کی تعداد محدود تھی۔ گاؤں کے چھوٹے حلقوں سے جہاں آٹھ یا دس ووٹرز ہوتے تھے امرا آسانی سے منتخب ہو کر آ جاتے تھے، جبکہ شہروں کی آبادی زیادہ تھی مگر شہریوں کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ متوسط طبقے کی سیاسی جدوجہد کی وجہ سے پارلیمان نے ووٹ کا حق زیادہ لوگوں کو دینے کا اعلان کیا۔
1685 میں گریٹ ریفارم بل پاس ہوا، جس میں ووٹروں کی تعداد کو بڑھایا گیا جس کا فائدہ متوسط طبقے کو ہوا۔ یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ مزید بل پاس ہوئے جن میں یونیورسل ووٹنگ کا حق عوام کو مل گیا۔
عورتوں کو ووٹ کا حق 1914 کی عالمی جنگ کے بعد ملا۔ انتخابات کی اس تبدیلی نے متوسط طبقے کو سیاسی، سماجی اور معاشی طاقت دی۔ اس کے نمائندے پارلیمان میں اس کی نمائندگی کرتے تھے۔
فرانس کے 1789 کے انقلاب نے امرا کے طبقے کا خاتمہ کر دیا اور ان کے خطابات اور مراعات باقی نہیں رہیں اور فرانس کے تمام باشندے شہری بن کر ایک قوم بن گئے۔ انقلاب کے نتیجے میں جو متوسط طبقہ سامنے آیا، اس نے کلیسا کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور سیکولر نظریے پر قوم کی تشکیل کرتے ہوئے خاص طور پر تعلیم کی طرف توجہ دی، غلامی کا خاتمہ کیا، عورتوں کو ان کے حقوق دیے جس کی وجہ سے فرانس میں ایک نئی قوم اور معاشرہ تخلیق ہوا۔
جرمنی جو 300 چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا، اس کے سیاست دان اور مفکرین جرمنی کو متحد کرنے کے خواہش مند تھے۔ جب نپولین نے جرمنی پر قبضہ کر کے 30 ریاستوں کو باقی رکھا تو جرمنی کے اتحاد میں آسانی ہو گئی۔ ان کے درمیان جو تجارتی مال پر چونگیاں تھیں، انہیں ختم کیا گیا تاکہ تجارتی مال ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکے۔
جب 1871 میں پروشیا کے چانسلر اوٹو وان بسمارک نے جرمنی کو متحد کیا اور جمہوری روایات اور اداروں کی تشکیل کیں، جس کی وجہ سے ایک جرمن متوسط طبقہ پیدا ہوا۔ اس نے جرمن زبان کو علمی اور ادبی زبان بنایا۔ الیکشن میں متوسط طبقے کے نمائندے پارلیمان میں منتخب ہوئے تو انہوں نے قانون سازی کے ذریعے معاشرے میں اصلاحات کیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہالینڈ جو ایک مدت تک سپین کی کالونی تھا۔ آزاد ہونے کے بعد اس نے جمہوری نظام کی بنیاد رکھی اور اس کے متوسط طبقے نے یورپی اور بین الاقوامی تجارت میں حصہ لے کر دولت (سرمایہ) جمع کی۔
ہندوستان، فرانس اور ہالینڈ کے متوسط طبقوں نے تجارتی کمپنیاں قائم کیں، جنہوں نے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کو اپنی نوآبادیاں بنایا اور ان سے جو مال و دولت لوٹا گیا، اس کی وجہ سے ان ملکوں میں صنعتی ترقی ہوئی، جس نے متوسط طبقے کو سیاسی طور پر اہم بنا دیا۔
ہندوستان میں مغلوں کے عہدِ حکومت تک کوئی متوسط طبقہ نہیں تھا۔ جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو انہیں انتظامیہ اور لگان کی وصولی کے لیے افراد چاہیے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ہندوستانیوں کو کمپنی کی انتظامیہ میں شامل کر لیا۔ جب برطانوی حکومت میں وسعت پیدا ہوئی تو نچلے درجے کے سرکاری عہدوں کے لیے افراد کی ضرورت تھی۔ اس وجہ سے میکالے نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا۔ تو اس نے یہ اظہار کیا کہ نئے تعلیم یافتہ ہندوستانی برطانوی حکومت کے ماتحت ہوں گے اور اس کے وفادار رہ کر اس کی خدمت کریں گے۔
یہ نیا طبقہ جو برطانوی حکومت میں نچلے درجوں پر فائز تھا، اس نے متوسط طبقے کی شکل اختیار کی لیکن یہ سیاست سے دور تھے۔ جب 1888 میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا تو اس کے تمام اراکین ہندو مسلم اور پارسی تھے۔ یہ سیکولر نظریے کو مانتے تھے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
آگے چل کر ہندوستان میں ہندو اور مسلمانوں کے متوسط طبقے پیدا ہوئے۔ مسلمان معاشرے میں مغل سلطنت کے بعد اشرافیہ انتہائی غربت میں تھی۔ اس کی آمدنی کے کوئی ذرائع نہیں تھے۔ برطانوی حکومت سے علیحدگی تھی۔ ان حالات میں سرسید نے اس طبقے کی حالت سدھارنے کے لیے اس پر زور دیا کہ وہ مغربی تعلیم حاصل کر کے سیاست سے دور رہ کر برطانوی حکومت کے عہدوں کے لیے مقابلہ کریں اور برطانوی حکومت سے مصالحت کرتے رہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی اور یہاں صرف اشرافیہ کے طبقے کو مغربی تعلیم دے کر انگریزوں کا حامی بنایا۔
مسلمانوں کے متوسط طبقے میں تاجروں کی برادریاں بھی شامل تھیں جن میں خواجہ، میمن، بوہری اور پنجابی سوداگران شامل تھے، لیکن تاجروں کی یہ برادریاں اپنی ہی حدود میں رہتی تھیں اور عام مسلمانوں کے لیے ان کے فلاحی کام محدود تھے۔
مسلمان متوسط طبقہ اس وقت سیاست میں آیا جب مونٹیگو چیمسفرڈ ریفارمز کا بل پاس ہوا تو مسلمان رہنماؤں کو یہ احساس ہوا کہ مسلمان اقلیت میں رہتے ہوئے سیاسی طور پر اکثریت کے ماتحت رہیں گے۔
انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اپنی اقلیت کو علیحدہ رکھنے کے بجائے اکثریت میں شامل ہو کر ہندوستانی قوم بن جائیں۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔