انڈین سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک پانچویں جماعت کے طالب علم کے رویے پر بحث ہو رہی ہے۔ گجرات کے گاندھی نگر سے تعلق رکھنے والا یہ بچہ چند روز قبل مشہور شو ’کون بنے گا کروڑپتی‘ میں شریک ہوا تھا۔
امیتابھ بچن کے سامنے بیٹھتے ہی اس بچے نے اپنے جوش و جذبے میں بہت سی ایسی باتیں کیں، جو انڈیا کے لوگوں کو پسند نہیں آئیں۔
امیتابھ نے شو کے ضوابط بتانے شروع کیے تو اس نے انہیں فوراً ٹوکتے ہوئے کہا کہ اسے سب معلوم ہے۔ وہ اسے ضوابط نہ بتائیں۔ سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو اس نے غیر معمولی اعتماد کے ساتھ شروع کے چند آسان سوالات کے جوابات بغیر آپشنز دیکھے ہی دے دیے۔
امیتابھ ہر بار اسے نرمی سے روک کر کھیل کے قاعدے کے مطابق آپشنز پڑھتے رہے۔ پھر ایک سوال پر وہ بچہ اٹک گیا۔ اس دفعہ اس نے امیتابھ سے سوال سننے کے بعد آپشنز دکھانے کا مطالبہ کیا۔
امیتابھ ہنس پڑے۔ انہوں نے آپشنز دکھائے تو اس بچے نے اپنے غیر معمولی اعتماد کے ساتھ غلط جواب کا انتخاب کیا اور بغیر کوئی رقم جیتے اس شو سے چلا گیا۔
شو تو ختم ہو گیا لیکن سوشل میڈیا پر بحث شروع ہو گئی۔ جتنے کی بورڈ، اتنی باتیں۔
کچھ لوگوں نے کہا کہ اصل غلطی اس بچے کے والدین کی ہے۔ انہیں اسے تعلیم کے ساتھ ساتھ تمیز بھی سکھانی چاہیے۔ اسے بتانا چاہیے کہ اسے بڑوں کے ساتھ کیسے بات کرنی ہے۔ ایک ٹی وی شو پر کیسا رویہ دکھانا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ نے اس تنقید پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ لوگ خواہ مخواہ اس بچے اور اس کے والدین کو ذہنی پریشانی دے رہے ہیں۔ کچھ نے کہا اس بچے کا رویہ ’سکس پاکٹ سنڈروم‘ یعنی ’چھ جیبوں کی بیماری‘ کا نتیجہ ہے۔
یہ اصطلاح چین سے آئی ہے۔ چین کی ایک بچہ پالیسی کے بعد کروڑوں ایسے خاندان بنے جہاں ایک بچے کو چھ لوگ یعنی اس کے ماں باپ، نانا نانی اور دادا دادی مل کر پال رہے تھے۔ ان سب نے اپنا لاڈ پیار اسی بچے کو دیا۔ کوئی اس بچے کو انکار نہیں کرتا تھا۔ اس کی ہر خواہش پوری ہوتی تھی۔
اس کے نتیجے میں چین میں ایک ایسی نسل سامنے آئی جو انکار سننے کی عادی نہیں تھی۔ جو ایک بڑی عمر تک اپنے والدین پر انحصار کرتی تھی۔ اس نسل کو دوسروں کے ساتھ کوئی جگہ یا چیز تقسیم کرنے کی بھی عادت نہیں تھی۔
یہی طرزِ پرورش آہستہ آہستہ جنوبی ایشیا میں بھی در آیا ہے۔ گھروں میں اب ایک ہی بچہ ہے، جو اسی چینی بچے کی طرح اپنی دنیا کا مرکز بن چکا ہے۔
گاندھی نگر کا یہ بچہ بھی غالباً ایسے ہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ اپنے گھر کا راجہ ہے۔ وہ گھر کے باہر لوگوں سے بھی راجہ کی طرح ہی میل جول رکھتا ہے، لیکن اس کا یہ رویہ صرف اس کے خاندان نے نہیں بنایا۔ پچھلی دہائی میں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا، ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا الگورتھمز نے اس کے رویے کو تشکیل دیا ہے۔
اس بچے کا تعلق جنریشن الفا (جین الفا) سے ہے۔ جین الفا 2010 سے 2024 کے درمیان پیدا ہونے والی وہ نسل ہے جس نے اپنی آنکھ ایک مکمل ڈیجیٹل دنیا میں کھولی ہے۔ اس نسل کے افراد ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں اور ڈیجیٹل طور پر بااختیار ہیں۔
انہوں نے مصنوعی ذہانت کو اپنی آنکھوں کے سامنے آتے اور پھلتے پھولتے ہوئے دیکھا ہے۔ سوشل میڈیا کے الگورتھمز نے انہیں ذاتی تجربات کا عادی بنا دیا ہے۔ وہ حقیقی دنیا میں بھی ذاتی تجربے چاہتے ہیں جہاں سب ان کی تعریف کریں اور کوئی ان پر تنقید نہ کرے۔
ان کا رویہ تبدیل ہونا مشکل ہے۔ ہمیں ہی ان کے مطابق ڈھلنا ہوگا اور ان کا رویہ کچھ ایسا بنانا ہو گا کہ وہ ہمیں اپنی دنیا میں جگہ دے سکیں اور ہمارے ساتھ مل کر کام کر سکیں۔
تعلیمی ادارے افراد کی تربیت کا اہم مرکز ہوتے ہیں۔ جین الفا اس وقت سکولوں اور کالجوں میں زیرِ تعلیم ہے۔ تین سال بعد ان کی پہلی کھیپ جامعات میں داخل ہو گی، جو ابھی تک جین زی کو بھی سمجھ نہیں سکی ہیں۔
پاکستانی جامعات اس وقت جین زی کو اخلاقیات سکھانے میں مصروف ہیں۔ ہر پروگرام میں اسلامیات، اخلاقیات اور کمیونٹی سروس جیسے کورسز ان کے لیے لازمی ہیں۔ ان کورسز کا مقصد انہیں وہی قدریں سکھانا ہے، جو ان جامعات میں دہائیوں سے طلبہ کو سکھائی جا رہی ہیں۔
جین زی بمشکل اس نظام کے ساتھ چل رہی ہے۔ جین الفا اس نظام کو نہیں مانے گی۔ وہ اس طرح زبردستی پڑھنے اور سیکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی طرح حقیقی دنیا میں بھی ذاتی تجربات چاہتے ہیں۔
اس لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو ان کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ہمیں اپنے اداروں کو ڈیجیٹلائز کرنا ہوگا جہاں کلاس روم ان کے لیے ایسے تجربہ گاہ ہوں جہاں وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک دوسرے کے ساتھ سیکھ سکیں۔
ہمیں ان کے لیے مصنوعی ذہانت سے لیس ایک ایسا تدریسی نظام دینا ہوگا جس میں سیکھنے کے عمل کا کنٹرول ان کے پاس ہو۔
ہمیں انہیں سکھانا ہوگا کہ تعلیم صرف ڈیٹا نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ ہے جو وہ اپنے والدین، اساتذہ اور ساتھیوں کی مدد سے حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم انہیں ایسی دنیا کے لیے راضی کر پائیں گے، جس میں وہ ہمیں برداشت کر سکیں ورنہ ہمیں ان کے سخت رویے کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔