نیپال کے بعد کیا پاکستانی جنریشن زی بھی کچھ کر سکتی ہے؟

پاکستان میں بھی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو سمارٹ فون اور انٹرنیٹ سے بھی مسلح ہے، تو کیا یہاں بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے؟

12 ستمبر 2025 کو کھٹمنڈو میں امن و امان کی بحالی کے لیے نافذ کرفیو کے دوران مظاہرین نیپال کے صدر ہاؤس کے سامنے نعرے لگا رہے ہیں (ارون سنکر/ اے ایف پی)

جنریشن زی نے پہلے بنگلہ دیش کے سیاسی افق پر ہلچل مچائی اور اب نیپال میں اس نے حکومت کا دھڑن تختہ کیا، کیا پاکستان میں بھی یہ جنریشن ایسا کچھ کرنے کے قابل ہے؟

سوشل میڈیا پر لگنے والی پابندی کی وجہ سے جو احتجاجی طوفان اٹھا وہ نہ صرف وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو بہا کر لے گیا بلکہ اس نے کئی حکومتی اراکین کو جان بچا کر بھاگنے پر مجبور بھی کیا۔

پاکستان میں بھی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو سمارٹ فون اور انٹرنیٹ سے بھی مسلح ہے، تو کیا یہاں بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے؟

جب حکومت عوامی مسائل حل نہیں کر پاتی تو لوگ اپنا غصہ حکمرانوں کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے نکالتے ہیں۔ وہ ان کی میمز بناتے ہیں، کارٹون شائع کرتے ہیں، طنزیہ جملے لکھتے ہیں اور تحقیر آمیز پوسٹرز بناتے ہیں۔

جب بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا سرکاری جبر بڑھا تو وہاں طالب علموں نے ان کے خلاف بغاوت کی جبکہ سکول، کالج اور یونیورسٹیز کے طلبہ نے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے آپ کو متحد کیا۔

نیپال میں نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے طبقاتی تضادات کو تیز کیا۔ ایک طرف عوامی غربت اور دوسری جانب حکمرانوں کی عیاشی کو آشکار کیا۔

نیپال اور بنگلہ دیش کے برعکس پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے، جہاں قومی اور طبقاتی جبر دونوں موجود ہیں لیکن قومی جبر کی شدت زیادہ ہے۔

کیونکہ نیپال اور بنگلہ دیش دونوں قومی ریاستیں ہیں جہاں پر قومی جبر کا سوال اتنا اہم نہیں ہے اس لیے وہاں طبقاتی مسئلے نے بڑی تیزی سے شدت اختیار کی اور جنریشن زی نے سوشل میڈیا کے ذریعے حاکم طبقات کی منافقت کو آشکار کیا۔

پاکستان کے برعکس دونوں ممالک میں فوج اتنی مضبوط نہیں جتنی یہاں ہے۔ پاکستان کے برعکس نیپال میں مذہب کا اثرورسوخ بہت کم ہے جبکہ بنگلہ دیش میں گزشتہ چند دہائیوں میں گو کہ مذہب کا اثر و رسوخ بڑھا ہے لیکن پھر بھی وہاں پر کچھ سیکولر روایتیں رہی ہیں۔ پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش میں گزشتہ کچھ دہائیوں میں صنعتی ترقی ہوئی جس کی وجہ سے ایک مضبوط مزدور طبقہ پیدا ہوا جس نے طبقاتی تضادات کو مزید تیز کیا۔ اس طبقے میں ایک بڑی تعداد جنریشن زی کی بھی ہے۔

پاکستان میں اس کے برعکس گزشتہ چار دہائیوں میں اچھی خاصی صنعتیں بند ہوئی ہیں جبکہ یہاں مذہب کا اثرورسوخ بھی بڑھا ہے۔

پاکستان میں جنریشن زی کا آخری غلبہ عمران خان کی قیادت میں دیکھنے میں آیا لیکن نو مئی کے بعد جو پاکستان تحریک انصاف پر کریک ڈاؤن ہوا ہے اس کے بعد جنریشن زی کے یہ زیادہ تر سپاہی یا تو انڈر گراؤنڈ ہو گئے ہیں یا گوشۂ گمنامی میں چلے گئے ہیں۔

پاکستان میں موجودہ وقت میں جنریشن زی کی ایک بڑی تعداد مذہبی موٹیویشنل سپیکرز یا مولویوں کی گرویدہ ہے۔ مثال کے طور پر ساحل عدیم کے یوٹیوب پہ تقریباً چھ لاکھ 71 ہزار سبسکرائبرز ہیں اور مولانا طارق جمیل کے آٹھ اعشاریہ 82 ملین۔

طارق مسعود کے ایک یوٹیوب اکاؤنٹ پر چار اعشاریہ 97 ملین جبکہ دوسرے اکاؤنٹ پر تین اعشاریہ 98 ملین، انجینئر محمد علی مرزا کے تین اعشاریہ 12 ملین، قیصر احمد راجہ کے ایک لاکھ 84 ہزار اور راجہ ضیاالحق کے ایک لاکھ 23 ہزار۔

سید مزمل کے چھ لاکھ 59 ہزار، شہزاد غیاث کے تین لاکھ 21 ہزار جبکہ ڈاکٹر تیمور رحمان کے دو لاکھ 82 ہزار کے قریب ہیں۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان کے تعلیمی اداروں میں بھی مفتی طارق مسعود، ساحل عدیم، طارق جمیل اور انجینئر مرزا وغیرہ مشہور ہیں۔

بنگلہ دیش اور نیپال کے برعکس پاکستان کی جنریشن زی کا ایک بڑا حصہ مذہبی رجحان رکھتا ہے اور جنریشن زی کو جو لوگ متاثر کرنے والے ہیں ان میں سے کچھ کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ جیسا کہ مفتی طارق مسعود اور طارق جمیل دوسری دنیا کی باتیں کرتے ہیں، ساحل عدیم عالمی خلافت کے داعی ہیں جبکہ قیصر احمد راجہ، راجہ ضیاالحق اور دوسرے مذہبی رجحان رکھنے والے سوشل میڈیا انفلوئنسرز میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے طاقتور حلقوں کو چیلنج کریں۔

شہزاد غیاث، مزمل شاہ اور تیمور رحمان ریاستی بیانیے سے ہٹ کر بات کرتے ہیں لیکن ان سب میں تیمور رحمان کے علاوہ کسی کا سیاسی پس منظر نہیں ہے یا کوئی بھی مؤثر طریقے سے سیاسی تبدیلی کے لیے کوشش نہیں کر رہا ہے۔

پاکستان کے سوشل میڈیا کے ایک اور حصے پر پیر، فقیر، جادو ٹونے والے اور دوسرے درجے کے مولوی چھائے ہوئے ہیں، جو پنڈی کی مرضی کے بغیر ہل بھی نہیں سکتے۔

جنریشن زی کا ایک اور بڑا حصہ ملک کے 36 ہزار سے زیادہ مدارس میں ہے، جہاں 25 لاکھ سے زائد طالب علم پڑھتے ہیں۔ ہر سال تقریباً چھ لاکھ طالب علم فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان مدارس کے مولویوں اور سرپرستوں کی ڈوریں بھی جی ایچ کیو سے ہلتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں تبدیلی کا ایک اور بڑا ذریعہ واشنگٹن ہے لیکن وہاں کا موسم بھی اسلام آباد کے لیے سازگار ہے جبکہ دو بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان بوٹ پالش کا مقابلہ جاری ہے۔

سندھ کے شہری علاقوں میں جنریشن زی کا ایک بڑا حصہ ایم کیو ایم لندن کے الطاف حسین کے ساتھ تھا لیکن وہ بھی تقریباً عملی طور پر سیاسی میدان میں غیر مؤثر ہے۔

بنگلہ دیش اور نیپال کی طرح پاکستان میں بھی بہت غربت ہے۔ نو کروڑ سے زیادہ لوگ غریب ہیں، 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، 67 فیصد لوگوں کے پاس رہنے کے لیے مناسب گھر نہیں ہے، 44 فیصد بچوں کے غذائی قلت کی وجہ سے قد نہیں بڑھیں گے لیکن پھر بھی یہاں نیپال یا بنگلہ دیش جیسی تبدیلی نہیں آسکتی کیونکہ ان دونوں ممالک کے برعکس یہاں کی جنریشن زی پر ایک بڑا غلبہ رجعت پسند مذہبی عناصر کا ہے جنہوں نے ہمیشہ اسٹیٹس کو کا ساتھ دیا ہے۔

آخری بات، نیپال اور بنگلہ دیش میں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کسی حد تک موجود ہیں جبکہ یہاں طلبہ یونین پر ایک طویل عرصے سے غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ صرف اسلامی جمعیت طلبہ کو آشیر باد حاصل ہے، جو ہمیشہ ہی عسکری رہی ہے۔

تو پاکستان میں فی الوقت کوئی امکان نہیں ہے کہ یہاں تخت گرتے دیکھے جائیں یا بقول فیض صاحب تاج اچھلنے کی کوئی صورت نظر آتی ہو۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر